ALI WALIAY NETWORK
بسم الله الرحمن الرحيم الله اكبر الله اكبرالله اكبراللهم صل على محمد وال محمدوعجل فرج قائم ال محمد
زیارة الأربعين :
اَلسَّلامُ عَلى وَلِيِّ اللهِ وَحَبيبِهِ، اَلسَّلامُ عَلى خَليلِ اللهِ وَنَجيبِهِ، اَلسَّلامُ عَلى صَفِيِّ اللهِ وَابْنِ صَفِيِّهِ، اَلسَّلامُ عَلى الْحُسَيْنِ الْمَظْلُومِ الشَّهيدِ، اَلسَّلامُ على اَسيرِ الْكُرُباتِ وَقَتيلِ الْعَبَراتِ، اَللّـهُمَّ اِنّي اَشْهَدُ اَنَّهُ وَلِيُّكَ وَابْنُ وَلِيِّكَ وَصَفِيُّكَ وَابْنُ صَفِيِّكَ الْفائِزُ بِكَرامَتِكَ، اَكْرَمْتَهُ بِالشَّهادَةِ وَحَبَوْتَهُ بِالسَّعادَةِ، وَاَجْتَبَيْتَهُ بِطيبِ الْوِلادَةِ، وَجَعَلْتَهُ سَيِّداً مِنَ السادَةِ، وَقائِداً مِنَ الْقادَةِ، وَذائِداً مِنْ الْذادَةِ، وَاَعْطَيْتَهُ مَواريثَ الاْنْبِياءِ، وَجَعَلْتَهُ حُجَّةً عَلى خَلْقِكَ مِنَ الاْوْصِياءِ، فَاَعْذَرَ فىِ الدُّعاءِ وَمَنَحَ النُّصْحَ، وَبَذَلَ مُهْجَتَهُ فيكَ لِيَسْتَنْقِذَ عِبادَكَ مِنَ الْجَهالَةِ وَحَيْرَةِ الضَّلالَةِ، وَقَدْ تَوازَرَ عَلَيْهِ مَنْ غَرَّتْهُ الدُّنْيا، وَباعَ حَظَّهُ بِالاْرْذَلِ الاْدْنى، وَشَرى آخِرَتَهُ بِالَّثمَنِ الاْوْكَسِ، وَتَغَطْرَسَ وَتَرَدّى فِي هَواهُ، وَاَسْخَطَكَ وَاَسْخَطَ نَبِيَّكَ، وَاَطاعَ مِنْ عِبادِكَ اَهْلَ الشِّقاقِ وَالنِّفاقِ وَحَمَلَةَ الاْوْزارِ الْمُسْتَوْجِبينَ النّارَ، فَجاهَدَهُمْ فيكَ صابِراً مُحْتَسِباً حَتّى سُفِكَ فِي طاعَتِكَ دَمُهُ وَاسْتُبيحَ حَريمُهُ، اَللّـهُمَّ فَالْعَنْهُمْ لَعْناً وَبيلاً وَعَذِّبْهُمْ عَذاباً اَليماً، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَا بْنَ رَسُولِ اللهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يَا بْنَ سَيِّدِ الاْوْصِياءِ، اَشْهَدُ اَنَّكَ اَمينُ اللهِ وَابْنُ اَمينِهِ، عِشْتَ سَعيداً وَمَضَيْتَ حَميداً وَمُتَّ فَقيداً مَظْلُوماً شَهيداً، وَاَشْهَدُ اَنَّ اللهَ مُنْجِزٌ ما وَعَدَكَ، وَمُهْلِكٌ مَنْ خَذَلَكَ، وَمُعَذِّبٌ مَنْ قَتَلَكَ، وَاَشْهَدُ اَنَّكَ وَفَيْتَ بِعَهْدِ اللهِ وَجاهَدْتَ فِي سَبيلِهِ حَتّى اَتياكَ الْيَقينُ، فَلَعَنَ اللهُ مَنْ قَتَلَكَ، وَلَعَنَ اللهُ مَنْ ظَلَمَكَ، وَلَعَنَ اللهُ اُمَّةً سَمِعَتْ بِذلِكَ فَرَضِيَتْ بِهِ، اَللّـهُمَّ اِنّي اُشْهِدُكَ اَنّي وَلِيٌّ لِمَنْ والاهُ وَعَدُوٌّ لِمَنْ عاداهُ بِاَبي اَنْتَ وَاُمّي يَا بْنَ رَسُولِ اللهِ، اَشْهَدُ اَنَّكَ كُنْتَ نُوراً فىِ الاْصْلابِ الشّامِخَةِ وَالاْرْحامِ الْمُطَهَّرَةِ، لَمْ تُنَجِّسْكَ الْجاهِلِيَّةُ بِاَنْجاسِها وَلَمْ تُلْبِسْكَ الْمُدْلَهِمّاتُ مِنْ ثِيابِها، وَاَشْهَدُ اَنَّكَ مِنْ دَعائِمِ الدّينِ وَاَرْكانِ الْمُسْلِمينَ وَمَعْقِلِ الْمُؤْمِنينَ، وَاَشْهَدُ اَنَّكَ الاْمامُ الْبَرُّ التَّقِيُّ الرَّضِيُّ الزَّكِيُّ الْهادِي الْمَهْدِيُّ، وَاَشْهَدُ اَنَّ الاَْئِمَّةَ مِنْ وُلْدِكَ كَلِمَةُ التَّقْوى وَاَعْلامُ الْهُدى وَالْعُرْوَةُ الْوُثْقى، وَالْحُجَّةُ على اَهْلِ الدُّنْيا، وَاَشْهَدُ اَنّي بِكُمْ مُؤْمِنٌ وَبِاِيابِكُمْ، مُوقِنٌ بِشَرايِعِ ديني وَخَواتيمِ عَمَلي، وَقَلْبي لِقَلْبِكُمْ سِلْمٌ وَاَمْري لاِمْرِكُمْ مُتَّبِعٌ وَنُصْرَتي لَكُمْ مُعَدَّةٌ حَتّى يَأذَنَ اللهُ لَكُمْ، فَمَعَكُمْ مَعَكُمْ لا مَعَ عَدُوِّكُمْ صَلَواتُ اللهِ عَلَيْكُمْ وَعلى اَرْواحِكُمْ وَاَجْسادِكُمْ وَشاهِدِكُمْ وَغائِبِكُمْ وَظاهِرِكُمْ وَباطِنِكُمْ آمينَ رَبَّ الْعالِمينَ.
بسم الله الرحمن الرحيمالله اكبر الله اكبرالله اكبراللهم صل على محمد وال محمدوعجل فرج قائم ال محمد بسم الله الرحمن الرحيم اللهم صل على محمد وآل محمد الاطهار والسلآم على النبي محمد صلى الله عليه واله وسلم الامام علي عليه السلام الصديقة الزهراء عليها السلام الامام الحسن عليه السلام الامام الحسين عليه السلام الامام السجاد عليه السلام الامام الباقرعليه السلام الامام الصادق عليه السلام الامام الكاظم عليه السلام الامام الرضا عليه السلام الامام الجواد عليه السلام الامام الهادي عليه السلام الامام العسكري عليه السلام الامام الحجة عجل الله فرجه الشريف

فلسفہ عزاداری

اشکوں کا راز  

فلسفہ عزاداری


قائد انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی نگاہ میں


حرف اول :
عاشورا اور قیام امام حسین علیہ السلام سے متعلق سن ۶۱ھ سے آج تک اس واقعے کے چشم دید گواہوں ، ائمہ اطہار علیہم السلام اور خطباء و شعراء کی زبان و قلم سے بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے لیکن ابھی تک اس وادی کے اسرار و رموز کو بیان نہیں کیا گیا ہے اور بہت کچھ کہنا باقی ہے ۔
بقول مولانا روم کے
گر بگویم شرح این معنی تمام صد قیامت بگذرد وین نا تمام
" اگر اس معنی کی مکمل تشریح کروں تو سو قیامتیں گزر جانے کے بعد بھی اس کی شرح نا مکمل رہ جائے گی ۔ "
گزشتہ چند سالوں میں یعنی انقلاب اسلامی سے پہلے اور اس کے بعد بھی اس عظیم واقعہ کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ۔ لیکن آج بھی امت مسلمہ کو اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ اس واقعہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ غور و فکر کرے ۔
عاشورا ایک عجیب درس ہے اور حقیر کی نظر میں آج کی سسکتی اور دم توڑتی دنیا کا علاج صرف یہ ہے کہ وہ سید الشہداء حسین ابن علی علیہما السلام کا درس پڑھے ، اسے سمجھے اور پھر اس پر عمل کرے ۔
ایران کی عظیم قوم اگر صرف اتنا کام کر سکے کہ اپنی زندگی اپنے انقلاب ، اپنی جنگ، اپنے سماج اور اپنے معاشرے میں اس عظیم درس کو دنیا کے سامنے جلوہ گر کر سکے تو یہ سب سے بڑی خدمت ہوگی دنیا کی ستمدیدہ اقوام کے لئے ( ۱ )
آزادی پسند امام
گزشتہ چند صدیوں کی بنسبت آج حسین ابن علی علیہما السلام کی شخصیت زیادہ معروف و مقبول ہے ۔ آج کے حالات میں جب بھی کوئی بے غرض مفکر اور دانشور تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتا ہے تو واقعہ کربلا پر پہنچ کر سر تسلیم خم کر دیتا ہے ۔ وہ افراد جن کا بظاہر اسلام سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ لیکن آزادی ، عدالت ، عزت ، سر بلندی اور دوسرے انسانی اقدار کے قدر داں ہیں وہ سب آزادی ، عدالت ، استقلال ، برائیوں سے مقابلے اور جہالت کے خلاف جنگ میں امام حسین علیہ السلام کو اپنا رہبر و پیشوا مانتے ہیں ۔ ( ۲ )
مقصد قیام ؟
امام حسین ( ع ) سے کہا جاتا تھا پورا مکہ اور مدینہ آپ کا احترام کرتا ہے ۔ اور یمن میں آپ کے اتنے چاہنے والے ہیں ۔ کہیں بھی چلے جائیے تا کہ نہ آپ کو یزید سے کوئی مطلب ہو اور نہ یزید کو آپ سے کوئی سروکار ۔
اتنے شیعہ ، اتنے چاہنے والے ، اتنے پیرو کار آرام سے زندگی بسر کیجئے ، خدا کی عبادت کیجئے اور اس کے دین کی تبلیغ کیجئے آخر یہ قیام کس لئے ؟ آپ کا کیا مقصد ہے ؟
کیا آپ کا مقصد حکومت تھا ؟
بعض لوگ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ یزید جیسے فاسق و فاجر انسان کو حکومت سے بر طرف کر کے خود حکومت کریں ۔ ہم نہیں کہتےکہ یہ بات بالکل غلط ہے البتہ آدھی صحیح ہے ۔ ان افراد کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے سوچا قیام کرتے ہیں اگر کامیاب ہوگئے تو حکومت اپنےہاتھ میں لے لیں گے اور اگر کامیاب نہ ہوئے تو واپس آجائیں گے ۔ یہ بات بالکل غلط ہے ۔
جی ہاں ! جو حکومت کی غرض سے قیام کرتا ہے وہ وہیں تک آگے بڑھتا ہے جہاں تک ممکن ہو لیکن جہاں اس نے دیکھا کہ اب آگے بڑھنا نا ممکن ہے تو پلٹ آتا ہے ۔ اگر کسی کا مقصد حکومت قائم کرنا ہے تو اسے وہیں تک جانا چاہتے جہاں جانے کا امکان ہے لیکن جہاں سے آگے بڑھنا ممکن نہ ہو عقلمندی یہی ہے کہ پلٹ آئے ۔
جو شخص یہ کہتا ہے امام حکومت علوی کے قیام کے لئے اٹھے تھے اور اس کی مراد یہ ہو جو ہم نے بیان کیا تو اس کا نظریہ صحیح نہیں ہے اس لئے کہ امام حسین علیہ السلام کے قیام سے کہیں بھی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ۔
تو پھر کیا قیام کا مقصد شہادت تھا ؟
بعض لوگ کہتے ہیں یہ حکومت و کومت سب بیکار کی باتیں ہیں امام حسین علیہ السلام جانتے تھے کہ وہ حکومت کا قیام عمل میں نہیں لا سکتے وہ تو اس لئے آئے تھے تا کہ خدا کی راہ میں قربانی دیں اور شہید ہوجائیں ۔
ایک مدت تک لوگ اسی نطریہ کے قائل تھے ۔ بعض لوگ شاعرانہ تعبیروں کے ساتھ اسے بیان کرتے بلکہ بعض بزرگ علما بھی اس کے قائل ہوگئے تھے ۔ وہ سب کہتے ہیں کہ امام عالی مقام نے دیکھا کہ اب زندہ رہنے کا کوئی مقصد نہیں لہٰذا شہادت کے ذریعہ ہی کچھ کیا جائے ۔
اسلام اس کی بھی اجازت نہیں دیتا اس لئے اسلام اس بات کا قائل نہیں کہ جاؤ اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالو اور قتل کر دیئے جاؤ ۔ شریعت اور دین نے جس شہادت کی بات کی ہے اس شہادت کا مطلب یہ ہے انسان ایک عظیم مقصد کی خاطر قیام کرے اور اس راہ میں اپنی جان بھی دیدے ۔ یہ ہے وہ شہادت جسے اسلامی اور دینی شہادت کہا جا سکتا ہے شہادت یہ نہیں ہے میں دوڑ کر میدان میں جاؤں تاکہ شہید کر دیا جاؤں یا شاعرانہ تعبیر میں کہا جائے کہ میرا خون ظلم و ستم کے ایوان ہلا دے اور اسے منہ کی کہانے پڑے ۔ امام حسین علیہ السلام کے عظیم قیام کا مقصد یہ بھی نہیں تھا جو کہا جاتا ہے ۔
ایک واجب کو انجام دینا
لہٰذا نہ کلی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے امام عالی مقام نے حکومت کے لئے قیام کیا اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے ان کے قیام کا مقصد شہادت تھا ۔
میری نظر میں جو لوگ " حکومت " یا " شہادت " کے قائل ہیں انہوں نے ہدف اور نتیجہ کو ملا دیا ہے ۔ امام کے قیام کا مقصد یہ نہیں تھا ،امام کے قیام کا مقصد کچھ اور تھا البتہ اس ہدف تک پہنچنے کے لئے انہیں ایک ایسا راستہ طے کرنا تھا جس کا نتیجہ دو ہی چیزیں تھی ں حکومت یا شہادت امام حسین علیہ السلام ان دونوں چیزوں کے لئے آمادہ تھے ۔ انہوں نے حکومت کے مقدمات کو بھی فراہم کر لیا تھا اور شہادت کی آمادگی بھی کر چکے تھے ۔ اب جو بھی ہاتھ آتا وہی صحیح تھا ، اس میں کوئی عیب نہیں تھا لیکن ان میں سے کوئی بھی مقصد نہیں تھا بلکہ نتیجہ تھا ۔ ہدف کچھ اورہوتا ہے ۔
اگر امام حسین علیہ السلام کے صحیح ہدف کو بیان کرنا ہے تو اس طرح سے کہا جا سکتا ہے کہ امام عالی مقام کے قیام کا ہدف ایک ایسے واجب کی انجام وہی تھا جو امام حسین علیہ السلام سے پہلے کسی نے انجام نہیں دیا تھا یہاں تک کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم امام علی علیہ السلام اور امام حسن علیہ السلام نے بھی ۔ ( ۳ )
اسلام کا ایک رکن
اسلام کے عملی احکام کا صرف ایک حکم جسے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیان کیا تھا لیکن اس پر عمل نہیں کیا تھا ۔ اور یہ اسلامی نظام کے ارکان کا ایک اہم رکن ہے ۔ اور وہ حکم اور رکن یہ تھا کہ جب بھی یہ اسلامی نظام اور اسلامی معاشرہ کی گاڑی پٹری سے نیچے آجائے اور اس کانظام بالکل الٹ جائے تو اس وقت امت مسلمہ کی ذمہ داری کیا ہے ؟ اگر بانی اسلام تمام اسلامی احکام و قوانین بیان کرتے لیکن صرف یہ ایک حکم بیان نہ کرتے تو ان کا کام ناقص رہ جاتا لیکن انہوں نے یہ بھی بیان کر دیا تھا۔وہ مسلمانوں سےکہہ کر گئے تھے اگر کسی وقت بھی اسلامی معاشرہ اسلام کے دائرے سے باہر نکل جائے اور صاحبان قدرت و ثروت ، مسلم نما منافقین یا کوئی بھی اسلامی سماج کا رخ بدلنا چاہے تو اس کے مقابلے میں امت مسلمہ کو کیا کرنا ہوگا ؟ پیغمبر اکرم ( ص ) یہ کہہ کر گئے تھے لیکن خود عمل نہیں کر سکے کیونکہ پیغمبر اکرم ( ص ) جب تک با حیات تھے تب تک امت مسلمہ اور اسلامی معاشرے میں ایسا کوئی انحراف پیدا نہیں ہوا تھا ۔ اسلام کا یہ رکن پیغمبر اکرم ( ص ) نے اس لئے بیان کیا تھا کیونکہ ان کے بعد ان کے جانشینوں کے زمانے میں ایسا ہونا عین ممکن تھا چاہے وہ کسی بھی جانشین کے زمانے میں ہوتا ۔ جس امام کے زمانے میں بھی یہ صورتحال پیدا ہوتی اسے وہی کرنا ہوتا جو پیغمبر نے بتایا تھا ۔ اگر امیر المومنین علی علیہ السلام کے زمانے میں ہوتا تو وہ ویسا ہی کرتے جیسا پیغمبر ( ص ) نے بتایا تھا یا اگر امام علی نقی علیہ السلام یا امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانے میں ہوتا تب بھی ان کی یہی ذمہ داری تھی ۔ اب چونکہ یہ صورتحال امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں پیش آئی لہٰذا ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس پر عمل کرتے ۔ تاکہ اسلامی نظام اور اسلامی سماج کو دوبارہ اسی حالت پر لے آتے جہاں پر وہ پہلے تھا ۔ یہ امام عالی مقام کی ذمہ داری تھی اور واقعہ عاشورا کی واقعیت اور حقیقت یہی ہے ( ۴ )
ہمارےانقلاب کی گاڑی
امام حسین علیہ السلام نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں تمام لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا : " ایہا الناس " اے لوگو ! یعنی اے وہ لوگو ! جو میرے ساتھ ارو میری تحریک حقیقت اور مقصد کوسمجھنا چاہتے ہو، اور اے وہ لوگو ! جو آج دشمن بن کر ہمارے سامنےکھڑے ہو اور اے غیر جانبدارغافلو! جن تک میرے حسین کے قیام کی خبر پہنچے گی لیکن تمہیں معلوم نہ ہوگا کہ میں نے کیوں قیام کیا ۔ اور اے وہ لوگو ! جو اسلام کے احکام اور خدا کی شریعت کو جاننا چاہتے ہو ہماری تحریک سے بے خبر ہو ۔
تم سب جان لو ! " ایھا الناس ان رسول اللہ قال من رأی سلطاناً جائراً مستحلاً لحرم اللھ ناکثاً لعھد اللہ یعمل فی عباد اللھ بالجوروالعدوان فلم یغیرعلیھ بقول ولا فعل کان حقا علی اللہ ان یدخلھ مدخلھ " یہ پیغمبر اکرم ( ص ) کے کلمات ہیں میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ہوں ، یہ وہی حکم ہے جو پیغمبر نے دیا ہے اور میں اس حکم پر عمل کر رہا ہوں اور وہ حکم یہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی بھی یہ دیکھ کہ معاشرے کی باگ ڈور کی ایسے شخص کے ہاتھوں میں ہے جو لوگوں پر ظلم و ستم کرتا ہے ۔ اس کے دل میں لوگوں کی نسبت بغض و عداوت اور کینہ ہے ۔ اسے لوگوں سے کوئی لگاؤ نہیں اور لوگوں سے بالکل محبت نہیں کرتا ۔ اسے اس سے سروکار نہیں ہے معاشرے کی مصلحت کیا ہے بلکہ اسے اس سے مطلب ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے اور اس کا فائدہ کس چیز میں ہے ۔ جو بھی ایسے شخص کو بر سر حکومت دیکھے اور اس کے خلاف قیام نہ کرے بلکہ بت بنا دیکھتا رہے تو خدا کو حق ہے کہ قیامت کے دن اسے بھی وہی سزا دے جو اس ظالم کی ہوگی ۔ یہی وہ انجن تھا جس نے ہمارے انقلاب کی گاڑی کو آگے بڑھایا ۔ ( ۵ )
سب سے بڑا ہنر
امام حسین علیہ السلام کے چاہنے والوں اور پیرو کاروں میں بہت سے امام حسین (ع) اور ان کی تحریک کو سمجھ چکے تھے ( اس لئے امام کے نقش قدم پر چل پڑے ) اور بعض نہیں سمجھ پائے تھے ( اس لئے وہ قافلۂ حسینی سے پیچھے رہ گئے ) ۔
دشمن تو خیر دشمن تھے ۔ دشمن ایسے تھے جیسے ایک گہرا سمندر ہو اور اس کی خطرناک اور سرکش موجیں ۔ دوستوں میں بعض دانا تھے جو امام کی معرفت حاصل کر چکے تھے اسی لئے ان حساس لمحوں میں حسین ابن علی کو تنہا نہیں چھوڑ ا اور بعض امام کے پاس ہوتے ہوئے انہیں نہ سمجھ پائے اور غلطی کر بیٹھے ۔ کون کہہ سکتا ہے کہ عبد اللہ ابن عباس اور عبد اللہ ابن جعفر کو اسلام اور خاندان پیغمبر سے محبت نہیں تھی ؟ یہ سب تو پیغمبر اکرم ( ص ) کے دامان محبت میں پروان چڑہے تھے لیکن یہاں غلطی کر بیٹھے ۔ نہیں جانتے تھے کہ وہ سر زمین جس کا دفاع واجب ہے کہاں ہے اور وہ چیز جس کے لئے فدا کاری کرنی چاہئے کون سی ہے ؟ مدینہ ہی میں رہے تا کہ چار مسئلے بیان کر سکیں لیکن اسلام مجسم ، قرآن ناطق ، فاطمہ کے لخت جگر حسین کو تنہا چھوڑ دیا ۔
بعض لوگ کربلا تک آئے ، جنگ کی، امام کا دفاع بھی کیا لیکن آخری لمحوں میں امام کی خدمت میں آکر کہنے لگے : مولا ہم سے جہاں تک ہو سکتا ہے آپ کا دفاع کیا اب اگر آپ کی اجازت ہو تو ہم خدا حافظی کریں ( اور اپنے گھروں کو جائیں ) امام نے بھی اجازت دے دی اور کہا بسم اللہ آپ لوگ جا سکتے ہیں ۔ بہت سے افراد تھے جو اس وقت خاموش رہے اور بیٹھے رہے جب اسلام کےلئے سب سے بنیادی اور ضروری دفاع کا وقت تھا ۔
آج بھی جو لوگ اسلام کا دم بہرتے ہیں ، اسلام کی باتیں کرتے ہیں اور اسلام کے دعویدار ہیں ، ان میں سے بہت سے نہیں جانتے کہ اسلام کہاں ہے اور کہاں اسلام کا دفاع کرنا چاہئے ۔ سب سے بڑا ہنر یہ ہے کہ انسان صحیح وقت اور جگہ کو پہچانے۔ حبیب ابن مظاہر جیسے افراد نے اچھی طرح پہچان لیا تھا ( اس لئے آخری دم تک امام کا ساتھ نہیں چھوڑ ا ) جناب زینب نہ صرف خود بلکہ اپنے بچوں کو بھی لے کر آگئیں ۔ جب کہ ان کے شوہر عبد اللہ ابن جعفر مکہ یا مدینہ میں بیٹھے رہے اور کربلا نہیں آئے ۔ جناب زینب یہ کہہ سکتی تھیں کہ میں اپنے بھائی کے ساتھ جا رہی ہوں بچوں کو باپ کے پاس چھوڑ کے جاتی ہوں لیکن وہ بچوں کو بھی لے کر آئیں اور ان کے دونوں بیٹے کربلا میں شہید ہوگئے ۔
یہ وہ لوگ ہیں جو بصیرت رکھتے ہیں اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کہاں پر کیا کرنا ہے۔ ( ۶ )
سچائی کا خاتمہ ہو جاتا
امام عالی مقام جانتے تھے کہ اگر انہوں نے یہ قیام نہ کیا تو ان کا یہ سکوت اور خاموشی رضامندی کی علامت بن جائے گی اور پھر اسلام پر کیا مصیبت آن پڑے گی ۔ جب ایک طاقت معاشروں یا کسی ایک معاشرے کے تمام وسائل پر قبضہ کر لے اور طغیان و بربریت کا راستہ پر گامزن ہو جائے، ایسے موقع پر حق و حقیقت کے علمبردار اگر خاموش بیٹھے رہیں اور ان کے مقابلے میں کھڑے نہ ہوں تو گویا وہ بھی اس طاقت کے عمل سے راضی ہیں چاہتے در حقیقت وہ راضی ہوں یا نہ ہوں ۔ یہی وہ گناہ تھا جو اس وقت بنی ہاشم کے بہت سے بزرگوں اور صدر اسلام کی اہم شخصیات کی اولاد نے انجام دیا ۔ لیکن امام حسین علیہ السلام کے لئے یہ بات ناقابل برداشت تھی اس لئے آپ نے قیام کیا ۔
واقعہ کربلا کے بعد جب قافلۂ حسینی واپس مدینہ میں آیا ۔ ( یعنی مدینہ مدینے سے نکلنے کے دس ، گیارہ مہینے بعد ) ایک شخص امام سجاد علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور کہنے لگے : دیکھا کیا ہوا ؟ کیا ملا وہاں جاکر ؟ امام نے اس کے جواب میں فرمایا: سوچو اگر نہ جاتے تو کیا ہوتا ؟!
جی ہاں ! اگر نہ جاتے تو کیا ہوتا ! جسم تو زندہ ہوتے لیکن سچائی دم توڑ چکی ہوتی ، روح فرسودہ ہوجاتی ، ضمیر مردہ ہوجاتے عقل و خرد کا جنازہ نکل جاتا اور اسلام کا نام و نشان باقی نہ رہتا ۔ ( ۷ )
علما سے خطاب
اس وقت کے علما کا ایک گروہ تشکیل ہوا جنہوں نے پیغمبر اسلام کو دیکھا تھا ، جو ان کے صحابی تھے ، جنہوں نے خود پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یا ان افراد سے حدیثیں تھیں جو پیغمبر سے حدیثیں نقل کرتے تھے ۔ وہ افراد جو لوگوں کی نگاہوں میں قابل احترام تھے اور دانشوران قوم کہے جاتے تھے ۔ انہیں افراد میں سے کچھ کو حسین ابن علی نے منی کے میدان میں اکٹھا کیا اور ان سے ایک مفصل گفتگو کی ۔ گفتگو کے آخر میں امام عالی مقام آسمان کی طرف رخ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں ( اللھم انک تعلم انھ لم یکن ما کان منا مناسفۃ فی سلطان ) ۔
خدایا تو بہتر جانتا ہے کہ جو کام ہم نے شروع کیا ہے ، جو قدم ہم نے اٹھ ایا ہے ، جو باتیں ہم کہتے ہیں یہ ان اہداف و مقاصد کے لئے نہیں ہیں جو عام طور سے دنیا طلب ، جنگجو اور لشکر کشی کرنے والے افراد کے ہوا کرتے تھے یا ہوا کرتے ہیں ( و لکن لنری المعالم من دینک ) ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگ پرچم اسلام کو پہچانیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ دین کی ان پوشیدہ علامتوں قرآن و اسلام کی فراموش شدہ اقدار ، اہداف اور اصولوں کو دوبارہ زندہ کریں جن پر بہت زیادہ گرد و غبار پڑ گیا ہے ( و نظھر الاصلاح فی بلادک ) اور ہمارا ارادہ ہے کہ تیری سر زمین اور تیرے شہر میں اصلاح کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسلامی معاشروں کو آباد کریں ، اس ظلم ، اس طبقاتی اختلاف غرباکا شدید فقر اور افراد کی حد سے زیادہ دولت نہ رہے ۔ انسان ظلم کا شکار نہ ہو ، نا انصافی اور روا داری نہ رہے اور سب کچھ ٹھیک ہوجائے ۔ (ویامن المظلومون من عبادک) اور ہماری تحریک کا مقصد یہ ہے کہ تیسرے ستمدیدہ اور مظلوم بندوں کو امن و امان اور سکون دلائیں ۔
وہ ایسا زمانہ تھا کہ جو بھی حکام وقت کی عیش و نوش اور ہوسرانیوں کے خلاف آواز بلند کرتا تھا اسے سخت سے سخت سزا دی جاتی تھی

۸
شہدائے کربلا کی عظمت كا راز
تمام شہداء برابر نہیں ہیں بلکہ بعض شہادتیں بعض دوسری شہادتوں سے افضل و برتر ہیں ۔ شہدائے کربلا اس لئے دوسرے شہدا پر افضلیت نہیں رکھتے کہ وہ بھوکے پیاسے شہید ہوئے ۔ ایسے بہت سے شہدا ہیں جو آخر وقت تک تشنہ لب رہے ۔ بلکہ شہدائے کربلا کی فضیلت اس حساس موقع پر شہید ہونا ہے ۔ ان حالات میں اگر یہ واقعہ پیش نہ آتا اور یہ شہادتیں نہ دی جاتیں تو دین کی بساط الٹ کر رہ جاتی ۔ جو کام جتنا حساس ہو اتنا سخت بھی ہوتا ہے ۔ اسی لئے اس بات کا یقین کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی کہ حسین ابن علی علیہما السلام پانچ مہینے یا اس سے کچھ زیادہ مکہ اور مدینہ کے درمیان سر گرداں رہے تا کہ سب لوگ جان لیں ( کہ کیا ہونے والا ہے اور وہ کیا کرنے والے ہیں ) اور سب جان بھی گئے کوفی ، عراقی ، حجازی سب کو معلوم ہوگیا تھا ۔ اور امام صرف چالیس پچاس لوگوں کے ساتھ کربلا میں وارد ہوئے ۔ کیونکہ سب اسی دن امام کے ساتھ نہیں آئے تھے بلکہ بہت سے بعد میں آئے تھے اور کچھ تو شب عاشور یا صبح عاشور امام سے ملحق ہوئے تھے ۔ ان چالیس آدمیوں کا امام کے ساتھ رہنا یقینا بہت سخت تھا اس لئے کہ دشمن کے اتنے بڑے سیلاب کے سامنے ڈٹے رہنا معمولی بات نہ تھی بلکہ اس کےلئے مضبوط ارادوں والام دل ہونا چاہئے۔
پیغمبر کے زمانے کی طرح نہیں تھا کہ پیغمبر خودہاتھ میں پرچم لے کر نکلتے تھے اور سب لوگ ہنستے اور مسکراتے ہوئے ۔ پیغمبر کی ہمراہی میں نکلتے تھے اور میدان جنگ میں پہنچ جاتے تھے ۔ آج تمام اصحاب پیغمبر ( ص ) گہروں میں بیٹہ گئے تھے عبد اللہ بن عباس ، عبد اللہ بن جعفر اور دوسرے افراد منہچھپا کر بیٹہ گئے تھے جب کہ یہ لوگ پیغمبر کے قرابتداروں میں سے تھے ۔
صرف ایک چہوٹا سا شجاع بہادر ، نڈر ، کفر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والے اور اسے حقارت کی نظر سے دیکھنے والا گروہ آمادہ تھا کہ تمام چیزوں کو نچھاور کر کے پیغمبر کے نواسے پر اپنی جان قربان کرے ۔
شہدائے کربلا کی اہمیت کی وجہ یہ ہے ۔ چونکہ اس وقت یہ فیصلہ بہت سخت اور دشوار تھا ۔ اسی لئے ابن زبیر ، ابن عمر ، ابن جعفر اور ابن عباس جیسے افراد اس قافلہ میں شامل نہ ہوسکے اور یہ سب ایک صف میں تھے ان میں کوئی فرق نہیں تھا ۔ کوئی یہ تصور نہ کرے کہ عبد اللہ ابن جعفر اور عبد اللہ ابن عباس دوسروں سے الگ تھے ۔ جی نہیں ایسا نہیں ہے ! نا فرمانی نافرمانی ہے چاہے وہ کوئی بھی کرے ۔ ان سب نے نافرمانی کی تھی کسی میں بھی جرائت نہیں تھی کہ حسین ابن علی کا ساتھ دے سوائے ان چند افراد کے ۔
ہم پوری تاریخ میں شہدائے کربلا جیسے عظیم شہدا تلاش نہیں کر سکتے ۔ آج بھی ویسے ہی دن ہیں آج ہمارے شہدا بھی بہت عزیز اور با عظمت ہیں لیکن جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا تھا ( لا یوم کیومک یا ابا عبد اللہ ) کوئی دن کربلا کے دن کی طرح نہیں ہوسکتا ۔ تاریخ میں آج تک ایسا دن نہیں آیا ۔ اسلام سے پہلے ، صدر اسلام میں اور اس کے بعد سے آج تک ہمیں ایسا کوئی دن نہیں ملتا جو کربلا کی طرح ہو ۔ یہی وجہ ہے امام حسین علیہ السلام کو سید الشہداء اور بقیہ شہدائے کربلا کو شہدائے تاریخ کا سردار کہا جاتا ہے جو سب سے عظیم اور سب سے برتر ہیں ۔ ( ۶۷ )
چراغ ہدایت
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ حدیث مبارکہ یقینا اس نے سنی ہوگی
( ان الحسین مصباح الھدیٰ و سفینۃ النجاہ )
بے شک حسین ( ع ) ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہے ۔ یہ صرف کسی ایک خاص زمانے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر زمانے میں ایسا ہی ہے ۔ البتہ بعض زمانوں میں خاص طور پر اس کا جلوہ نظر آتا ہے ۔ جب واقعہ عاشورا پیش آیا یہ انہیں زمانوں میں سے تھا ۔ علی و فاطمہ کے لخت جگر کا چراغ ہدایت اور کشتی نجات ہونا ان لوگوں کی سمجھ میں آگیا جو ان کی معرفت حاصل چکے تھے ۔ امام حسین واقعہ عاشورا سے دس سال پہلے امام بن چکے تھے آپ اس وقت بھی چراغ ہدایت اور کشتی نجات تھے لیکن یہ بات لوگوں کے لئے اتنی واضح اور روشن نہیں تھی واقعہ عاشورا میں واضح طور پر جلوہ گر ہوئی ۔ آج بھی وہی زمانہ ہے ۔ آج سے سو سال بلکہ پانچ سو سال کی بنسبت امام عالی مقام کا چراغ ہدایت ہونا زیادہ سمجھ میں آتا ہے۔ آج جب ہم کہتے ہیں کہ یہ زمانہ عصرتحریک اور عصر انقلاب ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آج حسین ابن علی پھر سے ایک ماہتاب عالم تاب بن کر چمک اٹھے ہیں ( جو تیرہ سو سال سے اس امت کے دل میں ، ہماری مجسدوں امامباڑوں اور ہماری مجالس و محافل میں ایک چراغ بن کر چمک رہے تھے ) جیسے واقعہ کربلا کے وقت بہت سے افراد تھے جو اس چراغ کی نورانیت کو نہ دیکھ سکے آج بھی ایسے افراد ہے جو دل افروز چراغ عالم تاب کو نہیں دیکھ پا رہے ہیں ۔ ( ۹ )
غیر جانبدار لوگ
پیغمبر اکرم ( ص ) نے ارشاد فرمایا : جب بھی معاشرے پر ایساحاکم ہو جائےجو حلال خدا حرام اور حرام خدا کو حلال کر رہا ہو ، خدا کے عہد و پیمان کو پائمال کر کے لوگوں پر ظلم و ستم ڈہا رہا ہو اور کینہ و دشمنی کی بنیاد پر لوگوں سے بدسلوکی کر رہا ہو ، توجو انسان اس صورتحال کو دیکھ رہا ہو، اپنی زبان و عمل سے اس کے خلاف کوئی اقدام نہ کرے ( کان حقا علی اللہ ان یدخلھ مدخلھ ) خدا کو حق ہے کہ اس شخص کو بھی وہیں رکہے جہاں اس ظالم کا ٹہکانہ ہے اور اسے بھی اس کے ساتھ عذاب میں مبتلا کرے ۔ آج بہت سے اسلامی ممالک میں ظالم و جابر حاکموں کی حکومت ہے جو حلال خدا کو حرام اور حرام الٰہی کو حلال کرنے میں لگے ہیں ۔ خدا کے عہد کو توڑ کر امریکہ سے عہد و پیمان کرتے ہیں ۔ ایسے ممالک میں وہ لوگ جو خاموش تماشائی بنے ہیں اور اس علم کے مقابلے اپنی کوئی ذمہ داری نہیں سمجھ تے یہ لوگ در حقیقت کس زمرے میں ہیں ؟ یہ سب قوت و طاقت جو خدا کی ملکیت ہے ان افراد کےہاتھ سے نکل کر غیروں کے ہاتھ میں جارہی ہے ۔ جہاں پر اتنا فساد ہو ظلم و زیادتی اور نا انصافی ہو وہاں خاموش اور بے پروا رہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان نے اپنی معنوی قوت کو روک لیا ہے اور اسے خدا کی راہ میں خرچ نہیں کر رہا ہے ۔ یہ پیغمبر اکرم ( ص ) کا بیان ہے کسی اور کا نہیں ۔ حسین ابن علی کا قیام بھی اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے اس ظلم و زیادتی اور فساد کے مقابلے اپنی قوت و طاقت کا استعمال کیا اور انسانیت و تاریخ کو اس بات کا سبق سکھایا کہ اگر تمہارے سماج میں اس طرح کی صورتحال پیش آئے تو تمہیں کیا کرنا چاہیے ! ( ۱۰ )
جہالت اور گمراہی کے خلاف جنگ
امام حسین علیہ السلام کی زیارت اربعین میں ایک جملہ ہے جو اس زیارت کے دوسرے بہت سے جملوں کی طرح پر معنی اور غور طلب ہے اور وہ جملہ یہ ہے ( و بذل مھجتھ فیک ) یہ ایک زیارت ہے لیکن اس کے ابتدائی جملے دعائیہ کلمات ہیں جس میں انسان خداوند متعال سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ( و بذل مھجتھ فیک ) یعنی اے پروردگار ! حسین ابن علی نے اپنی جان اور اپنا خون تیری راہ میں قربان کیا ( لیستنقذعبادک من الجھالۃ ) تاکہ تیرے بندوں کو جہالت کی دلدل سے باہر نکالے ( و حیرۃ الضلالۃ ) اور گمراہی میں سر گرداں ہونے سے بچائے ۔
یہ سکہ کا ایک رخ ہے جسے حسین ابن علی ( ع ) کہا جاتا ہے سکے کے دوسرے رخ کا تعارف اس جملے کے ذریعے کروایا جا رہا ہے ( و قد تزاورعلیھ من غرتھ الدنیا و باع حظھ بالارذل الادنیٰ ) یہ وہ لوگ تھے جنہیں زندگی کے فریب نے خود میں مشغول کر دیا تھا ۔ مادی دنیا ، اس کی زرق و برق اور خواہشات نفسانی نے انہیں خود سے غافل بنا دیا تھا ( و باع حظھ بالارذل الادنیٰ ) انہوں نے سعادت و خوشبختی جیسے عظیم سرمایہ کو ، جو خدا خلقت کے ساتھ ہر انسان کو عطا کرتا ہے ، بہت نا چیز اور حقیر داموں میں بیچ دیا تھا ، یہ ہے حسینی تحریک کا خلاصہ ۔ اگر چہ امام حسین علیہ السلام کا ظاہری مقابلہ یزید سے تھا لیکن در حقیقت ان کا مقابلہ اس کم عمر کے یزید سے نہیں تھا بلکہ ان کا مقابلہ جہالت ، ذلت ، گمراہی اور انسان کی زبوں حالی سے تھا ۔ امام حسین علیہ السلام ان چیزوں سے مقابلہ کر رہے تھے ۔ ( ۱۱ )
دین کے لئے فدا کاری
عاشورا کا سب سے پہلا سبق دین اور خدا کی راہ میں فدا ہوجانا ہے ۔ عاشورا کا یہ سب سے واضح درس ہے ۔ ان سخت و حالات میں امام عالی مقام نے تمام مسلمانوں بلکہ تمام عالم بشریت ، تمام آزاد منش افراد چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم ، کو یہ درس دیا کہ اگر انسان کا شرف ، اس کی آزادی اور استقلال ، انسانی اقدار اور مسلمانوں کا دین خطرے میں پڑ جائے تو ان سخت شرائط میں بھی دین کا دفاع ایک اسلامی اور انسانیفریضہ ہے۔ یہ نہ کہا جائے کہ حالات سخت ہیں یہ بہانہ نہ بنایا جائے کہ بہت مشکل ہے ۔ ہو سکتا ہے اور دین کا دفاع ہمیشہ اور ہر حال میں کیا جا سکتا ہے ۔حسین ابن علی ( ع ) نے محکم ارادے ، جذبۂ فداکاری اور شہادت طلبی کے ذریعہ ان سخت حالات میں دین کا دفاع کا جب وہ بالکل اکیلے تھے ۔ بنی ہاشم اور قریش کے بزرگوں اور اصحاب کی اولاد نے بھی امام کا ساتھ نہ دیا ۔ مکہ میں عبد اللہ ابن زبیر ، مدینہ میں عبد اللہ ابن جعفر اور عبد اللہ ابن عمر یعنی وہ افراد جن کے باپ صدر اسلام کی قد آور اور نامی شخصیتیں تھیں اور لوگوں کی چشم امید ان پر لگی ہوئی تھی ۔ یہ وہ لوگ جن سے لوگوں کی امیدیں وابستہ تھیں لیکن یزیدی ظلم کے مقابلے اٹھ کھڑے ہونے پر تیار نہ ہوئے اور پیغمبر کی نصرت پر آمادہ نہ ہوئے ۔ کیا حسین ابن علی ان کی نصرت کی امید لگائے بیٹھے تھے ؟ کیا ان کے مدد نہ کرنے سے امام اپنے عمل سے دستبردار ہوجاتے ؟ نہیں امام نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ۔ جب بیچ راستے ہی میں امام کو خبر ملی کہ اب کوفے والے ان کا ساتھ نہیں دیں گے اور وہ اکیلے رہ گئے ہیں تو وہ پیچھے نہیں ہٹے۔ جب کربلا کے اس بیابان میں ان کے تمام ساتھ ی شہید ہوگئے اورصرف چند خواتین یا بچے باقی بچے تو اس وقت بھی دفاع اور جہاد کو جاری رکھا ۔ اگر آخری وقت تک امام راضی ہوجاتے اور سر تسلیم خم کر دیتے تو یزیدی فوراً مان لیتے ۔ لیکن امام اس کے آگے جہکے نہیں ۔ یہ ایک عظیم درس تھا کربلا کے واقعہ کا۔ ( ۱۲ )
جب دینداروں کی قلت ہوجائے
عاشورا کا ایک درس یہ بھی ہے کہ اس نے افراد کو دو حصوں میں تقسیم کردیا کوفے کے بہت سے بزرگوں اور رؤسائے شہر نے امام حسین ( ع ) کو خط لکہ کر بلایا تھا اور یہ دعوت اس وقت دی تھی جب امام مدینہ سے نکل چکے تھے ۔ لوگوں کو خبر نہیں تھی کہ ماجرا کیا ہے ؟ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک سخت امتحان اور دشوار مرحلہ سے گزرنا ہوگا ۔ مکہ سے بہت سے افراد امام کے ساتھ نکلے تھے لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ اس تحریک کا انجام کیا ہوگا ۔ اگرچہ بظاہر راستہ دشوار نظر آرہا تھا لیکن ابھی حقیقت حال سے بے خبر تھے ۔ جیسے ہی حقیقت دہیرے دہیرے ظاہر ہونے لگی حق و حقیقت کے طرفدار کم ہونے لگے ۔ سختیوں نے اہل دنیا کو بہگا دیا ۔ جیسے کہ خود امام فرماتے ہیں (الناس عبید الدنیا و الدین لعق علی السنتھم فاذامحسوا بالبلاء قلت دیانون) اس وقت صورت حال بالکل یہی تھی ۔ جب مشکلات سامنے آتی ہیں تو دینداروں کی تعداد میں کمی ہونے لگتی ہے اور جب تک آرام اور سکون ہے دعویدار بہت ہوتے ہیں ۔ اس وقت مکہ ، مدینہ ، کوفہ اور پورے عالم اسلام میں بہت سے افراد تھے جن کا دعویٰ تھا کہ وہ دین کے پیرو کار ہیں اور بے چوں و چرا اس پر عمل کرنے والے ہیں ۔ بہت سے لوگ تھے جو حسین ابن علی ( ع) کو فرزند رسول کے عنوان سے پہچانتے تھے ، مانتے تھے اور ان سے محبت بھی کرتے تھے لیکن جب امام حسین علیہ السلام مکہ سے نکلنے لگےتو ان میں سے بہت سے امام کے ساتھ آنے پر تیار نہ ہوئے ۔ آپ یہ تصور نہ کریں کہ عبد اللہ ابن جعفر امام کو نہیں مانتے تھے یا بنی ہاشم کے وہ افراد جو امام کے ساتھ نہیں آئے امام کو امام نہیں سمجھتے تھے ۔ جی نہی؛ ایسا نہیں ہے ۔ یہ سب حسین ابن علی کو اپنا امام مانتے تھے انہیں فرزند رسول اور ایک عظیم انسان سمجھ تے تھے لیکن ان کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے چونکہ بہت سخت تھا امام کا ساتھ دینا ۔ ( ۱۴ )
صبر جمیل
امام حسین علیہ السلام اپنا سب کچھ اپنا سب سے قیمتی اور عظیم سرمایہ میدان میں لے کر آگئے تا کہ دین کا دفاع کریں اور پھر صبر بھی کیا ۔ امام کا یہ صبر بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ ہم نہیں جانتے " صبر " کسے کہتے ہیں ۔ صبر کی حقیقت کو صبر کی جگہ سمجھ ا جا سکتا ہے ۔ بہت سی بزرگ شخصیتیں ، محدثین ، برجستہ افراد عقلا ، ہمدرد ، سب بار بار آتے تھے اور امام سے کہتے ہیں آپ ایک ایسا کام کرنے جا رہے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ خود آپ کا بھی گھاٹا ہوگا اور خاندان پیغمبر کو بھی ۔ اور آپ کے اس کام سے اہل حق ذلیل و رسوا ہونگے ۔
اس طرح کی باتیں کرتے تھے ۔ جب امام نے مکہ سے نکلنے کا ارادہ کیا اور بہت سے افراد کو معلوم ہوا تو اخلاقی رکاوٹیں شروع ہوگئیں اور شب عاشور تک جاری رہیں ۔ لیکن امام عالی مقام نے ان تمام چیزوں کے مقابل صبر کیا وہی صبر جس کا میں نے تذکرہ کیا ۔ امام خمینی ( رح ) نے بھی اسی طرح صبر کیا ۔ جب آپ نے تحریک شروع کی تو آپ سے کہا جاتا تھا : " آقا یہ جوان نابود ہوجائیں گے ۔ قتل کردئے جائیں گے ، حکومت اور نظام خطرہ میں پڑ جائے گا " لیکن آپ نے صبر کیا ۔ ان خیر خواہوں کی نصیحتوں کے آگے صبر کرنا بہت عظیم کام ہے ۔ صبر کرنے کے لئے بہت قوت و طاقت درکار ہے ۔ صبر صرف جسمانی مشکلات اور اذیتوں کے مقابل نہیں ہے ۔ مصلحت پسندی اور مصلحت تراشی جیسے دباؤ کے مقابلے صبر اور صحیح ، اورواضح راستے سے جدا نہ ہونا وہ صبر جمیل ہے جسے امام حسین ( ع ) نے انجام دیا ۔ ( ۱۵ )
سب کچھ قربان کردیا
ایک محدث یا ایک مفسر وہ شخص ہوتا ہے لوگ جس کے پاس آتے ہیں ۔ اس کے علم سے فیضیاب ہوتے ہیں اور اس کی نصیحتوں کو سنتے ہیں ۔ اس طرح کے افراد تھے ، اس طرح کے نمایاں افراد تھے جو لشکر حسینی میں شامل تھے ۔ البتہ ان بہتر افراد کے ساتھ کچھ خواتین ، کچھ بچے ، بہنیں ، بیویاں ، بیٹیاں حرم اہل بیت ، امام حسین علیہ السلام کے اعزا و اقارب یہ سب تھے جنہیں امام اپنے ساتھ لائے تھے ۔ ان سب کو لائے تاکہ اسلام اور خدا کی راہ میں قربانی دیں ۔ امام حسین ( ع ) کو آغاز سفر ہی سے اس واقعہ کی توقع تھی ۔ امام حسین ( ع ) کا قیام اس شخص کی طرح نہیں تھا جو موت سے فرار اختیار کر رہا ہو ۔ بلکہ وہ اس شخص کی طرح تھے جو مسکرا کر موت کا استقبال کر تا ہے ۔
ایسا نہیں ہے کہ امام حسین علیہ السلام حکومت کے خواہاں نہیں تھے ، یا کوفہ کو اپنے کنٹرول میں نہیں لینا چاہتے تھے یا یہ کہ وہ صرف ایک کہیل تماشا کر رہے تھے ، امام حسین علیہ السلام یقیناً کوفہ کی حکومت کے لئے نکلے تھے لیکن اپنی شہادت کو بھی دیکھ رہے تھے اور جو افراد ان کے ساتھ تھے اور ان کی بات سنتے تھے ان سے فرمایا کرتے تھے ( ألا ومن کان باذلا فینا محجتھ و مؤطئا الی لقاء اللہ نفسھ … ) وہ شخص جو حاضر ہے کہ ہماری راہ میں اپنا خون دے ،خود بھی حاضر تھے کہ اپنا خون دیں، مکمل طور سے آمادہ تھے ۔ وہ شخص جس نے اپنے نفس کو آمادہ کر لیا ہے خدا سے ملاقات کے لئے ۔ امام نے اپنے کو آمادہ کر لیا تھا کہ خدا سے ملاقات کریں اور جانتے تھے کہ شہید ہوجائیں گے اور انہیں یہ امیدبھی تھی کہ شہادت سے پہلے اپنے مقصد تک پہنچ جائیں گے ۔ امام حسین علیہ السلام کے پاس جو کچھ تھا سب لے کر آئے اس خونخوار دشمن اسلام اور قرآن کے سامنے ، کیونکہ جانتے تھے کہ اس قربانی سے راستہ کہل جائے گا ۔ ( ۱۶ )
تلوار ہمیشہ تیار رہے
ایک روایت کے مطابق شب عاشور امام حسین علیہ السلام تنہائی میں ایک شعر گنگنا رہے تھے جس کا مفہوم یہ تھا کہ اب ان کا وقت آخر آگیا ہے جناب زینب سلام اللہ علیہا وہیں کھڑی تھیں لہٰذا یہ سن کر گریہ کرنے لگیں ۔ روایت میں یہ بھی ہے کہ امام حسین علیہ السلام اس وقت اپنی تلوار کو صیقل کر رہے تھے ۔ یعنی امام حسین علیہ السلام یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ کل تو ہم جانا ہی ہے اب چاہے ایک گہنٹے پہلے یا ایک گہنٹہ بعد میں لہٰذا اگر تلوار تہوڑی کند بھی ہے تو کیا فرق پڑتا ہے ۔ جی نہیں ! راہ خدا میں جہاد کرنے والے کی تلوار کند نہیں ہونی چاہئے یعنی اس کی قوت و طاقت بہت اعلیٰ و ارفع ہونی چاہئے ۔ ( ۱۹ )
زینبی کردار
جناب زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت غم و اندوہ اور تیمار داری میں ہی خلاصہ نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک مسلمان خاتون کا مکمل نمونہ تھیں ۔ یعنی وہ آئیڈیل جسے اسلام نے خواتین کی تربیت کے لئے لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے ۔ زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی شخصیت ، ایک ہمہ گیر شخصیت ہے ۔ عالم و دانا ، صاحب معرفت اور ایک نمایاں انسان کہ جب بھی کوئی ان کے سامنےکھڑا ہوتا ہے ان کی علمی و معنوی عظمت اور معرفت کے آگے سر تسلیم خم کر دیتا ہے ۔
ایک مسلم خاتون جس پہلو کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتی ہے یہی ہے یعنی اسلام کو اپنے وجود میں بسانا ۔
ایمان کی برکت اور اپنے آپ کو خدا کے حوالے کردینے سے ایک مسلمان عورت کا دل اس قدر گشادہ ہو جاتا ہے اور وہ اتنی مضبوط ہوجاتی ہے کہ بڑے بڑے حادثات اس کے آگےگھٹنے ٹیک دیتے ہیں ۔
زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی زندگی کا یہ پہلو سب سے زیادہ نمایاں ہے ۔ عاشورا جیسا عظیم واقعہ زینب کو جھکا نہیں سکا ۔ یزید اور ابن زیاد جیسے ظالم و ستمگر افراد کی ظاہری حشمت اور جاہ و جلال زینب کو نہ للکا رسکے ۔ زینب نےہمیشہ اور ہر جگہ اپنے آپ کو ثابت قدم رکھا ۔ ان کا وطن مدینہ ہو یا سخت امتحان و آزمائش کی آماجگاہ کربلا یا پھر یزید و ابن زیاد کا دربار ہر جگہ زینب ثابت قدم اور سر بلند رہی اور باقی سب ان کے آگے سرنگوں ہوگئے ۔ یزید اور ابن زیاد جیسے مغرور اور ستمگر افراد اس دست بستہ اسیر کے سامنے ذلیل و خوار ہوگئے ۔
زینب کبریٰ کی شخصیت میں ایک طرف صنف نسواں کی عطوفت و مہربانی ہے او ردوسری طرف ایک مومن انسان کے دل میں پائی جانے والی متانت ، عظمت اور سکون و پایداری ، ایک مجاہد راہ خدا کی صاف اور گویا زبان ۔ ایک پاک و خالص معرفت ،جو ان کی زبان و دل سے نکلتی اور سننے والوں کو مبہوت کردیتی ہے ۔
ان کی نسوانی عظمت ، جھوٹے بزرگوں کو حقیر و پست بنا دیتی ہے اسے کہتے ہیں نسوانی عظمت ! حماسہ اور عطوفت سے مرکب وہ عظمت جو کسی فرد میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی ۔
وہ ہستی جو اپنی متین شخصیت اور پایدار روح کے ذریعہ تمام ناگوار حوادث کو سر کر جائے اور بہڑکتے ہوئے شعلوں کو شجاعت و بہادری سے اپنے پیروں تلے روند ڈالے ۔ لوگوں کو درس دے اور انہیں بیدار کرے ۔ ساتھ ہی اپنے زمانے کے امام کو ایک مہربان ماں کی طرح تسلی و تشفی دے ۔ اور ان نازک حالات اور طوفان ھوادث میں یتیم بچوں کی حفاظت اور ان کی تسلی و تسکین کے لئے ایک محکم دیوار بن جائے ۔
اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ جناب زینب سلام اللہ علیہا ایک ہمہ گیر شخصیت تھیں ۔ اسلام ایک عورت کو اسی طرف لے جانا چاہتا ہے ۔ ( ۲۰ )
ہنر مندانہ گفتگو
میری نظر میں جناب زینب کو ادبیات و ہنر کے ذریعہ عظیم واقعات وحوادث کی حفاظت کرنے اور انہیں بچانے کا بانی کہا جاسکتا ہے ۔
اگر جناب زینب نہ ہوتیں اور ان کے بعد دوسرے اہل حرم جیسے امام سجاد علیہ السلام نہ ہوتے تو تاریخ میں واقعہ کربلا کا نام نہ ہوتا ۔
سنت الٰہی یہی ہے کہ اس طرح کے واقعات تاریخ میں باقی رہیں ۔ البتہ سنت الٰہی کایہ ایک شیوہ اور طریقہ ہے ۔ تاریخ میں ان واقعات کی بقا کا طریقہ یہ ہے کہ صاحبان اسرار ، اہل درد اور وہ افراد جو ان حقائق سے مطلع ہیں وہ دوسرے کو ان سے آگاہ کریں ۔ اس لئے اپنی یاد داشت کو بیان کرنا ، انہیں مدون کرنا اور حقائق کو دوسرے تک منتقل کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس کا اپنا ایک مقام و مرتبہ ہے ۔ ہنرمندانہ بیان اور گفتگو اس کی ایک بنیادی شرط ہے جیسے کوفہ و شام میں جناب زینب سلام اللہ علیہا کے خطبات حسن بیان اور جذابیت کے اعتبار سے ایک ہنر مندانہ گفتگو تھی ۔ ایک ایسی گفتگو کہ کوئی بھی ایسے نظر انداز نہیں کرسکتا ۔ جب ایک مخالف اس گفتگو کو سنتا ہے تووہ ایک تیز تلوار کی اس پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ ہنر کا اثر اپنے مخاطب سے وابستہ نہیں ہوتا ۔ وہ چاہے یا نہ چاہے ہنر اپنا کام کر دکھاتا ہے شام میں جناب زینب اور امام سجاد نے اپنے فصیح و بلیغ اور ہنر مندانہ گفتگو کے ذریعہ یہی کام کیا ۔ ( ۲۱ )
تین بنيادی عناصر
امام حسین علیہ السلام کے قیام میں تین بنیادی عنصر پائے جاتے ہیں :
عنصر منطق و عقل ، عنصر عزت و حماسہ ، عنصر مہر و عطوفت:
عقل و منطق کا عنصر امام عالی مقام کے خطبات اور بیانات میں صاف نظر آتا ہے ۔واقعہ سے پہلے سے یعنی مدینہ سے کربلا تک امام کے نورانی بیانات کا ایک ایک جملہ ایک محکم اور پایدار عقل و منطق کی حکایت کرتا ہے ۔ اس منطق کا خلاصہ یہ ہے جب حالات سازگارہوں ، اسباب فراہم ہوں اور موقع غنیمت ہو تو مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ قیام کرے ۔ چاہے اس میں خطرات ہوں یا نہ ہوں ۔ جب اساس دین خطرے میں ہو اور آپ اپنی زبان و عمل سے اس کا مقابلہ نہ کریں تو خدا یہ حق رکھتا ہے کہ اس غیر ذمہ دار انسان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے جیسے اس ظالم اور ستمگر کے ساتھ کرے گا
۔
عنصر عزت و حماسہ
دوسرا عنصر ، حماسہ ہے ۔ یہ مجاہدت اور یہ مقابلہ اسلامی عزت و وقار کے ساتھ ہو " العزة للہ و لرسولھ و للمومنین " کیونکہ عزت صرف خدا ، اس کے رسول اور مومنین کے لئے ہے ۔ اس قیام اور جہاد میں ایک مسلمان کا فرض ہے کہ اپنی اور اسلام کی عزت کی حفاظت کرے ۔ اس مظلومیت کے اوج پر آپ کو ایک چہرہ نظر آتا ہے ایک حماسی اور صاحب عزت چہرہ ۔ اگر ہم آج کےسیاسی اور فوجی مقابلوں اور جہاد پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ وہ افرادہاتھ میں بندوق لے کر میدان جنگ کے لئے نکل پڑے ، بسا اوقات انہوں نے خود ذلیل کیا ہے ۔ لیکن واقعہ عاشورامیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔
جب امام حسین ( ع ) ایک شب کی مہلت مانگتے ہیں تو عزت مندانہ طریقے سے مہلت لیتے ہیں ۔ جب ھل من ناصر کہہ کر نصرت طلب کرتے ہیں وہاں بھی عزت و اقتدار ہے ۔ مدینہ سے کوفہ تک کے راستے میں جب مختلف افراد سے ملتے ہیں ، ان سے گفتگو کرتے ہیں اور انہیں اپنی نصرت کی دعوت دیتے ہیں یہ ضعف و ناتوانی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ بھی ایک نمایاں اور دلیرانہ عنصر ہے ۔
( اسی زمانے میں ) مدرسہ فیضیہ میں عاشور کے دن امام خمینی ( رح ) کے اس یادگار خطاب کو یاد کیجئے ۔ ایک عالم جس کے پاس نہ کوئی مسلح فوجی ہے نہ کوئی ہتھیار لیکن پھر اس عزت و وقار کے ساتھ گفتگو کرتا ہے کہ اپنی عزت کے آگے دشمن کو گہٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ یہ ہے عزت کا مقام و مرتبہ ۔
عنصر مہر و عطوفت
عاشورا کا تیسرا عنصر مہر و عطوفت ہے ۔ جو خود اس واقعہ میں بھی نظر آتا ہے اور اس کے بعد بھی نظر آتا ہے ۔ اس عنصر کا بہت اہم رول رہا ہے جس نے عاشورائی اور شیعہ تحریک کو دوسری تحریکوں سے ممتاز بنا دیا ۔ عاشورا صرف ایک عقلی اور استدلالی تحریک نہیں ہے بلکہ اس میں عتق و محبت، نرمی و مہربانی اور گریہ و اشک کا عنصر بھی پایا جاتا ہے ۔ جذبات و احساسات کی طاقت بہت عظیم طاقت ہوتی ہے ۔ اس لئے یہ ہمیں حکم دیتا ہے رونے کا رلانے کا اور اسے واضح اور روشن کرنےکا ۔ زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کوفہ و شام میں ایک گفتگو کرتی ہیں لیکن ساتھ میں مرثیہ بھی پڑھتی ہیں امام سجاد شام کے منبر پر جاکر عزت و افتخار کے ساتھ حکومت وقت کو پکارتے ہیں لیکن مرثیہ پڑھتے ہیں ۔ جذبات اور احساسات کے ماحول میں بہت سے ایسےحقائق کو سمجھا جاسکتا ہے جو دوسری جگہوں پر سمجھ میں نہیں آتے ۔ ( ۲۲ )
عاشورا ایک عید
واقعہ کربلا کو ایک وقت ہم مصیبت کی آنکہ سےدیکھتے ہیں جس میں تمام مصیبتیں پائی جاتی ہیں ہم اس کا انکار نہیں کرتے بلکہ اس کی تأئید کرتے ہیں ۔ اور ہمارے لئے اس کی بہت زیادہ برکات تھی ں ( اور ہیں ) اور یہ اس واقعہ کا جذباتی ، احساساتی اور عاطفی پہلو ہے ۔ امام حسین کون تھے ؟ کیوں قتل کیے گئے ؟ کیسے قتل کئے گئے ؟ کن لوگوں نے انہیں قتل کیا ؟ اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ۔
لیکن ایک بار آپ عاشورا کو اس نگاہ سےدیکھتے ہیں کہ اسلام مر رہا تھا عاشورا نے اسے زندہ کیا ۔ اس خون اور اس شہادت کے ذریعہ دم توڑتا اسلام پھر سے زندہ ہوگیا ۔ جب آپ اس نگاہ سے عاشورا کودیکھیں گے تو آپ بھول جائیں گے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش آیا تھا ۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا ؟ آپ بھول جائیں گے کہ امام حسین علیہ السلام جیسی کسی شخصیت کا قتل ہو ۔ کیونکہ اس واقعہ کا یہ مثبت پہلو اتنا صاف ، شفاف اور حاوی ہے کہ تمام منفی پہلووں کوچھپا دیتا ہے ۔ یہ بالکل وہی بات ہے جو سید ابن طاووس کہتے ہیں : " اگر یہ درد و غم اور مصیبتیں نہ ہوتیں تو ہم عاشور کے دن نیا لباس پہنتے اور اسے ایک عید کے طور پر مناتے " ۔ ( ۲۴ )
خون کی خاصیت
دنیا کی بزرگ اور نمایاں شخصیات جب ایک عظیم مقصد کی راہ میں شہید ہوجاتی ہیں وہ اگرچہ اس تحریک ، اس انقلاب یا اس معاشرے کو اپنے فقدان کے ذریعہ ایک اہم اور گرانقدر شخصیت سے محروم کر دیتی ہیں لیکن اپنی فداکاری اور اپنے خون و شہادت کے ذریعہ اس تحریک کو زندہ کر جاتی ہیں ۔ بالکل اسی طرح جیسے تاریخ میں ہمارے شہدا کا وجود رہا ہے جس کی ایک واضح مثال واقعۂ کربلا ہے ۔
امام حسین علیہ السلام جیسی بے مثل اور گرانقدر شخصیت جب اس دنیا سے اٹھ جاتی ہے اگرچہ معاشرہ کا اس شخصیت سے محروم ہونا نا قابل جبران نقصان اور خلا کا باعث ہے لیکن ان کی قربانی اتنی عظیم ہے کہ تحریک حسینی زندہ جاوید بن جاتی ہے ۔ یہ ہے قربانی اور فداکاری کی تاثیر ۔ یہ ہے خون کی خاصیت ۔ جب دعوے انسانوں کے خون سے جامہ عمل پہن لیتے ہیں تو ہمیشہ کے لئے زندہ ہوجاتے ہیں۔ ( ۲۵ )
عزا برپا کرنے والے غافلو
مولانا روم نقل کرتے ہیں کہ ایک شاعر شہر حلب میں داخل ہوا ۔اس نےدیکھا کہ پورے شہر کے در و دیوار سیاہ پوش ہیں ۔ اس نے سوچا شاید کوئی بادشاہ ، شہزادہ ، سردار یا شہر کا کوئی معزز انسان دنیا سے چل بسا ہے ۔ کسی سے پوچھا کہ آخر کون مرگیا جو پورا شہر سیاہ پوش ہوگیا ہے ؟ اس شخص نے اس پر ایک نگاہ ڈالی اور پوچھا کیا تم اس شہر میں اجنبی ہو ؟ جواب دیا : ہاں ! بولا : میں سمجھ گیا تھا کہ تم اجنبی ہو اسی لئے پوچہ رہے ہو ۔ یہ محرم کا مہینہ ہے ۔ حسین ابن علی علیہ السلام کی شہادت کا مہینہ ہے اسی لئے ہم سب سیاہ پوش ہوگئے ہیں ۔
اب شاعر نے اس سیاہ پوش کے جواب میں شعر کہنا شروع کہا کہ جب یہ لوگ جو درجۂ شہادت پر فائز ہوئے ہیں اور حسین ابن علی شہید کئے گئے ہیں تو یہ ان کی خوشی اور جشن کا دن ہے ۔
زانکہ ایشان خسرو دین بودہ اند وقت شادی شد جو بگستند بند
سوی شاد روان دولت تاختند کندہ و زنجیر را انداختند
وہ شہید ہوکر خوش ہوئے لہٰذا ان کے دوستوں کو بھی ان کی شہادت پر خوش ہونا چاہئے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آپ کو آج کیوں معلوم ہوا کہ حسین شہید ہوئے ؟ آج معلوم ہوا تو عزاداری بپا کر رہے ہیں ؟ ان چند سو سالوں میں ( چوتھی اور پانچویں صدی میں ) دنیائے اسلام یہ نہ سمجھی کہ حسین ابن علی شہید ہوگئے اور انہیں کیوں شہید کیا گیا ؟ تم خواب غفلت کا شکار تھے ۔
پس عزا برخود کنیدای خفتگان زانکھ بد مرگسیت این خواب گران
حقیقت ہے جو لوگ جو یہ نہ سمجھ پائے کہ حسین کیوں شہید ہوئے ۔ جو یہ نہ سمجھ پائے کہ وہ علم جو حسین ابن علی علیہما السلا کے ہاتھوں میں تھا وہ کیوں بلند کیا گیا اور حسین کو ماننے والوں کی ذمہ داری کیا ہے ، انہیں خود پر رونا چاہئے جب بھی حسین کے نام پر آپ کے دل میں سوزش ہو اور آپ گریہ کریں تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ کیوں گریہ کر رہے ہیں ۔ آپ کو پتہ ہونا چاہئے کہ اس عزاداری اور ان اشکوں کا کیا پیغام ہے ؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی غافل رہیں اور پھر خود پر گریہ کریں اور حسین ابن علی کو نہ سمجھ پائیں ۔ ( ۲۸ )
چہلم
چہلم کی اہمیت کس وجہ سےہے ؟ کیا صرف اس لئے کہ امام عالی کی شہادت کے چالیس ان گذر چکے ہیں ؟ آخر اس کی کیا خاصیت ہے ؟ چہلم کی خصوصیت یہ ہے کہ اس دن سید الشہداء کی شہادت کی یاد تازہ ہوئی اور یہ بہت اہم چیز ہے ۔ فرض کیجیےاگر تاریخ میں یہ عظیم واقعہ رونما ہوتا یعنی حسین ابن علی اور ان کے باوفا ساتھیوں کی شہادت ہوجاتی اور بنی امیہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے یعنی جس طرح انہوں نے امام عالی مقام اور ان کے ساتھ یوں کے جسمہائے مبارک کو خاک و خون میں غلطاں کیا اسی طرح اس وقت کے لوگوں اور آنے والی نسلوں کے ذہنوں سے ان کی یاد بھی مٹا دیتے تو کیا ایسی صورت میں اس کا شہادت کا اسلام کو کوئی فائدہ پہنچتا ؟
یا یہ فرض کریں کہ اس وقت اس کا ایک اثر ہوتا لیکن کیا آنے والی نسلوں پر اور مستقبل کی بلاؤں ، مصیبتوں ، تاریکیوں اور یزیدان وقت پر بھی اس کا کوئی خاص اثر ہوتا ؟
ایک قوم کی مظلومیت اس وقت دوسری ستمدیدہ زخمی اقوام کے لئے مرہم بن سکتی ہے جب یہ مظلومیت ایک فریاد بن جائے ۔ اس مظلومیت کی آواز دوسرے لوگوں کے کانوں تک بھی پہنچے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بڑی طاقتیں ایک آواز پر دوسری آواز بلند کرتی ہیں تاکہ ہماری فریاد بلند نہ ہونے پائے ۔ اسی لئے وہ بے تھا شا پیسہ خرچ کر رہے ہیں تاکہ دنیا نہ سمجھ پائے کہ تحمیلی جنگ کیا تھی ، کیوں پیش آئی ، اس کا محرک کون تھا ، کس کے ذریعہ تھوپی گئی ۔ اس وقت بھی استکباری طاقتوں کی پوری کوشش تھی کہ جو بھی جتنا بھی خرچ ہو کسی بھی طرح سے حسین کا نام ، ان کی یاد ، ان کی شہادت اور کربلا و عاشورا لوگوں کے لئے درس نہ بننے پائے اور اس کی گونج دوسری اقوام کے کانوں تک نہ پہنچے ۔ البتہ شروع میں خود ان کی بھی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ یہ شہادت کیا کرسکتی ہے لیکن جتنا زمانہ گزرتا گیا ان کی سمجھ میں آنے لگا ۔ یہاں تک کہ بنی عباس کے دوران حکومت میں امام عالی مقام کی قبر کو منہدم کیا گیا ۔ اسے پانی سے گھیر دیا گیا ۔ تاکہ اس کا کوئی نام نشان باقی نہ رہے ۔ یہ ہے شہداء اور شہادت کی یاد کا اثر ۔ شہادت اس وقت تک اپنا اثر نہیں دکہاتی جب تک اسے زندہ نہ رکھا جائے گا اس کی یاد نہ منائی جائے اور اس کے خون میں جوش نہ پیدا ہو اور چہلم وہ دن ہے جب پیغام حسینی کو زندہ رکہنے کا پرچم لہرایا گیا اور وہ دن ہے جب شہداء کی بقا کا اعلان ہوا اب چاہے امام حسین (ع) کے پہلے چہلم میں اہل حرم کربلا آئے ہوں یا نہ ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ چہلم وہ دن ہے جب پہلی بار امام حسین کے زائر،ان کی زیارت کو آئے ۔ پیغمبر اسلام اور مولائے کائنات کے اصحاب میں سے جابر ابن عبد اللہ انصاری اور عطیہ آئے امام کی زیارت کے لئے ۔ جابر اگرچہ نابینا تھے لیکن عطیہ کاہاتھ پکڑ کر امام حسین علیہ السلام کی قبر پر آئے اور زار و قطار رونے لگے ۔ امام حسین علیہ السلام سے گفتگو کی ، درد دل بیان کیا ۔ امام حسین ( ع ) کی یاد کو زندہ کیا اور زیارت قبور شہدا کی سنت کا احیاء کیا ۔ ایسا اہم دن ہے چہلم کا دن ۔ (

Karbala Part I by Mir Babar Ali Anees

Jab qata ki masafat e shab aaftaab ne
Jalwa kiya sahar ke rukhe behijaab ne
Dekha suwe falaq Shahe gardoon raqaab ne
Mudh kar sada rafeeqo ko di us janaab ne
Aakhir hai raat hamd o sanaye Khuda karo
Utho fareezaye sahri ko ada karo

Haan ghaaziyon ye din hai jidaal o qitaal ka
Yaan khoon bahega aaj Mohammad ki aal ka
Chehra khushi se surkh hai Zahra ke laal ka
Guzri shabe firaaq din aaya visaal ka
Hum wo hain gham karenge malak jin ke waastey
Raatein tadap ke kaati hai is din ke waastey

Ye sunke bistaron se uthe wo Khuda shinaas
Ek ek ne zebe jism kiya fakhira libaas
Shane muhasino mein kiye sab ne be hiraas
Baandhe amame aaye imame zaman ke paas
Rangeen abaayein dosh pe kamre kasey huwe
Muskh o zibaad o itr mein kapde basey huwe

Khaime se nikle Shay ke azeezaane khush khisaal
Jin mein kayi thay Hazrate Khairun nisa ke laal
Qasim sa gul badan Ali Akbar sa khush jamaal
Ek jaa Aqeel o Muslim o Jafar ke nau nihaal
Sab ke rukhon ka noor sipahre bareen pa tha
Athara aaftaabon ka ghuncha zameen pa tha

Nagaah charkh par khate abyaz huwa ayaan
Tashreef jaanemaaz pe laaye Shahe zamaan
Sajjade bich gaye aqabe Shahe ins o jaan
Saute Hasan se Akbar e Mahrooh ne di azaan
Har ek ki chashm aansuon se dab daba gayi
Goya sada Rasool ki kaano mein aagayi

Namoose Shaah rotey thay khaime mein zaar zaar
Chupke khadi thi sahn mein bano e naamdaar
Zainab balayein leke ye kahti thi baar baar
Sadqe namaziyoon ke muazzin ke main nisaar
Karte hain yoon sana o sifat Zul Jalaal ki
Logon azaan suno meri yousuf jamaal ki

Ye husn e saut aur ye qirat ye shad o madd
Haqqa ke afsahul fusuha thay inhi ke jadd
Goya hai lahn e Hazrat e Dawoode ba khiradd
Ya Rabb rakh is sada ko zamane mein taa abadd
Shu’be sada mein pankhadiyaan jaise phool mein
Bul bul chahak raha hai riyaaz e Rasool mein

Saf mein huwa jo naraye qad qaamatis salaat
Qaim huwi namaaz uthey Shahe qainaat
Wo noor ki safein wo musalli falak sifaat
Sardaar ke qadam ke taley thi rahe nijaat
Jalwa tha ta ba arshe mu’alla Hussain ka
Mus haf ki lauh thi ke musalla Hussain ka

Quraan khula huwa ke jama’at ki thi namaaz
Bismillah aagey jaise ho yoon thay Shahe hijaaz
Satrein thi ya safein aqab e Shahe sarfaraaz
Karti thi khud namaaz bhi inki adaa pe naaz
Sadqe sahar bayaaz pe bainas sutoor ki
Sab aayatein thi mus hafe naatikh ki noor ki

Dunya se uth gaya wo qayaam aur wo qaood
Inke liye thi bandagi wajibul wujood
Wo ajz wo taweel ruku aur wo sujood
Ta’at mein neest jaantey thay apni hast o bood
Taqat na chalne phirne ki thi haath paon mein
Gir gir ke sajde karte thay taghoon ki chaon mein
Farigh huwe namaaz se jab qibla o anaam
Aaye musafahe ko jawaanan e tashnakaam
Chume kise ne dast e Shahinshaah e khaas o aam
Aakhein miley kisi ne qadam par ba ehteraam
Kya dil thay kya sipaah e rasheed o sayeed thi
Ba ham mu’anaqe thay ke marne ki eid thi

Zaari thi ilteja thi munajaat thi idhar
Waan sar kashi o zulm o ta’addi o shor o shar
Kahta tha ibne saad ye jaa jaa ke nahr par
Ghatoon se hoshiyaar tarayi se ba khabar
Do roz se hai tashna dahani Hussain ko
Haan martey dam bhi deejiyo na pani Hussain ko

Baithey thay jaanemaaz pe Shahe falak sareer
Nagaah qareeb aake girey teen chaar teer
Dekha har ek ne mudhke suwe lashkar e kaseer
Abbas uthey tol ke shamsheer be nazeer
Parwane thay siraaj e imamat ke noor par
Rokey sipar huzoor karamat zahoor par

Akbar se mudhke kahne lage Sarware zamaan
Baandhe hai sarkashi pa kamar lashkare giraan
Tum jaake kahdo khaime mein ye ay pidar ki jaan
Bachon ko leke sahn se hatt jaaye bibiyaan
Ghaflat mein teer se koi bacha talaf na ho
Darr hai mujhe ke gardane Asghar hadaf na ho

Kahte thay ye pisar se Shahe aasmaan sareer
Fizza pukari deordhi se ay khalq ke ameer
Hai hai Ali ki betiyaan kis jaa ho goshgeer
Asghar ke gahware tak aakar girey hain teer
Garmi se saari raat ye ghut ghut ke roye hain
Bachey abhi tou sard hawa paake soye hain

Baqir kahin parha hai Sakina kahin hai ghash
Garmi ki fasl ye tab o taab aur ye atash
Ro ro ke sogaye hain sagheerane maahwash
Bachon ko leke yaan se kahan jaaye faqa kash
Ye kis khata pe teer piya pe barastey hain
Thandi hawa ke waastey bachey tarastey hain

Uthey ye shor sunke Imame falaq viqaar
Deordhi tak aaye dhaloon ko roke rafiq o yaar
Farmaya mudhke chaltey hain ab bahre kaarzaar
Kamre kasoo jihaad pe mangwao raahwaar
Dekhein fizaa behisht ki dil baagh baagh ho
Ummat ke kaam se kahin jaldi firaagh ho

Khaime mein jaake Shay ne ye dekha haram ka haal
Chahre tou faqq hai aur…
Zainab ki ye dua thi ke ay Rabbe Zuljalaal
Bach jaaye is fasaad se khairun nisa ka laal
Bano e naik naam ki khaiti hari rahey
Sanndal se maang bachon se godhi bhari rahey

علی ّ والے

Imam Hussain (A।S।)





Birth

Hazrat Imam Hussain (A.S.) was born on the 3rd of Shaban 4th Hijrah in Medinah Munawarra. His father was Ali (A.S.) and mother was Fatimah (S.A.). When the Prophet (P.B.U.H.) heard the news of Imam Hussain's birth he (P.B.U.H.) became very happy and came to the house of Fatimah (S.A.). Asma, the maidservant of Hazrat Zahra covered the child in a white cloth and brought him to the Prophet (P.B.U.H.). The Prophet (P.B.U.H.), picked the child up in his lap and recited the Azaan in his right ear and Aqamat in the left one. As if, apparently, he (P.B.U.H.) made the ears of his son familiar and acquainted with the name of God for the first time. On the seventh day of the birth, an angel came from the God and he said, "Just as Haroon was the brother, sympathizer, and helper in each and every difficulty of Moosa (A.S.) similarly Ali (A.S.) is your sympathizer helper and brother in each and every matter of yours. Therefore, keep the name of this child upon the name of Haroon's son "Shabeer," which translated into Arabic becomes 'Hussain'. Thus the name of the second child of Fatimah (S.A.) was also selected by God.

On the 7th day of the birth Hazrat Fatimah (S.A.) got a sheep slaughtered as the Aqeeqa and distributed it's meat among the needy and poor.

The Prophet (P.B.U.H.) quite often hugged Hussain (A.S.) taking him into his lap and used to weep bitterly, saying, "A very big tragedy will be met by my son Hussain". The brutals and bloody men of Bani Omyaide will slay my dear son. I will not interces and mediate for them on the dooms day.

The Love of the Prophet (P.B.U.H.)

The Prophet (P.B.U.H.) loved Imam Hussain (A.S.) very much. His companion Salman Farsi describes, "I saw that the Prophet (P.B.U.H.) had picked up Imam Hussain (A.S.) upon his knee and was kissing him saying, "Oh son, you are the Imam son of Imams and father of nine Imams, who would be from your generation and the last one of them is Mehdi. "One can estimate and guess the amount of love the Prophet had with Imam Hussain (A.S.) from this sentence of his "Hussain is from me and I am from Hussain." The one who is the friend of Hassan and Hussain is my friend and the one who is their enemy, is my enemy.

Hussain (A.S.) the Best Helper of his Father and Brother

Imam Hussain (A.S.) spent six years of his life with his grandfather the Prophet (P.B.U.H.) and thirty years along with his honorable father Ali (A.S.). He shared each and every problem and grief of his father. He always defended his father. Once he went to the mosque and saw Hazrat Omer delivering a speech on the tribune of his grandfather. He immediately said, "get down from the tribune of my grandfather and father. What have you got to do over there?"

During the reign of his father, Imam Hussain (A.S.) playing upon his life used to be busy defending Islam and fighting against the tyrants and brutal.

He fought against the enemies by the side of his father like his brother Imam Hassan Mujtaba (A.S.) in the battles of Jamal, safeen, and Neherwan.

He, after the martyrdom of his father, legally took the oath of allegiance for his brother and accepted him his leader and Imam. And whenever someone asked him a question he used to send him towards Imam Hassan (A.S.). And wherever he deemed suitable he himself would give the answer. Briefly speaking, he considered the defense of his brother something necessary for himself.

The Rule of 
Muawiyah

When Imam Hassan Mujtaba (A.S.) was martyred due to the conspiracies of Muawiyah, Imam Hussain (A.S.) got the post of Imamate and caliphate at the age of forty-six.

Imam Hussain (A.S.) knew that all the miseries and sorrows of Muslims were due to Muawiyah who wanted to uproot Islam by his frauds, cunningness and craftiness. Therefore, Imam (AS.) did not think it was suitable to fight him openly, as Muawiyah was apparently Muslim and showed himself to be the supporter of Islam and Muslims. Therefore, Imam Hussain (A.S.) knew that if I declare a war upon him I would meet the same fate as my brother did. So he started the movement of awakening the people from the dream and slumbers of ignorance, and unawareness. So that they may turn towards him slowly and gradually, by getting aware and informed. Ultimately. Imam (A.S.) may make them work for the welfare of Islam. Along with the training of the Momins (faithful), with which Imam was busy, he occasionally opposed Muawiyah. And always gave teeth breaking and strong answer to his scurrilous language particularly when he started making people take the oath and allegiance of faithfulness for his ignorant, silly, impure, and bad character, degenerate, and undutiful son Yazeed. The Imam (A.S.) too started openly and publicly opposing him and wrote many such letters to Muawiyah by which he disgraced him very much. One of his letters reads:

i) Oh Muawiyah! You are the claimant of the caliphate and to be the successor of my grandfather? Did you not slay Hajar bin Addi and his companions in the land of Azra. You are a criminal, a killer. Then how do you claim to be the leader and caliph of my Ummah?

ii) Oh Muawiyah! Did you not declare Ziad publicly your brother and the illegitimate son of Abu Sufian about whose father the Muslims are unaware? (That who is his father and who is not?)

As such, by declaring him to be your brother, you have yourself admitted the dirtiness and uncleanness of your family. Then how can the caliphate be your right?

iii) Oh Muawiyah! The most shameful act of yours is that you have made such a silly, stupid unable and unworthy person a ruler of the Muslims whose characterless ness, excesses and aggressions are not hidden and concealed from anyone. As such, you want to destroy the religion of God and make the Muslim ummah a toy by forcibly making them take the oath of allegiance for him (Yazeed).

Hussain (A.S.) and 
yazeed

Although Imam Hussain (A.S.) did not leave any stone unturned in disgracing and belittling Muawiyah even then he did not fight or clashed with him.

Nonetheless, after the death of Muawiyah his incapable son Yazeed being a proud and thickheaded person posed himself as the leader of the Muslims. And started making the Islamic personalities takes the oath of allegiance for the sake of establishing and strengthening his government.

He wrote to the governors of the cities and as such wrote a letter to Waleed who was governor of Medinah that "Immediately take the oath of allegiance from Hussain (A.S.) And if he refuses to do that then cut down his head and send it to me".

Muawiyah had several times insistedly warned him that you might dash against anybody except Hussain (A.S.), in which case you would get destroyed. The ruler of Medinah summoned Imam Hussain (A.S.) and informed him about the letter of Yazeed. He said "I am ready for the martyrdom because only Yazeed's becoming the caliph of Muslims is the death and disintegration of Islam".

When Imam (A.S.) observed the worsened condition and atmosphere of Medinah he along with his companions migrated to Makka under the dark cover of the night. His mere act of migration from Medinah was a great objection upon the people's taking oath of allegiance for Yazeed.

Imam's (A.S.) migration not only created a hue and cry in Medinah, but it also set up an atmosphere of discussion and objections against Yazeed in Makka. And the hue and cry raised to the climax when Imam (A.S.) addressing a gathering of the pilgrims raised his voice against the obnoxious, dirty, and impure government of Yazeed.

This stand and pledge of Imam Hussain (A.S.) made the people of the whole area completely aware and understand that the caliphate of Yazeed is not correct and taking oath of allegiance for him is dishonesty to Islam and Muslims.

The Invitation of Kufis

When the news of the migration and objection of Imam Hussain (A.S.) upon the Yazeed's regime reached Kufa. All of them (Kufis) got themselves prepared to invite him to Kufa and elect him for the caliphate and the leadership of Islam. They sent messengers along with letters, rolls and scrolls, and formally invited Imam Hussain (A.S.) to visit Kufa.

But, because of the fact that Imam (A.S.) knew about the unfaithfulness of the Kufis and he himself had witnessed their untruthfulness towards his father and brother so he sent his cousin 'Muslim bin Aqeel' to Kufa so that he might observe the whole affair closely and invite Imam (A.S.) if he deemed fit and suitable. Muslim bin Aqeel moved towards Kufa as desired and ordered by Imam (A.S.) and when he reached there he met a warm, noisy, grand welcome. Thousands of people took oath of allegiance and offered prayers behind him.

Muslim bin Aqeel wrote a letter to Imam (A.S.) asking him to immediately move. Imam stayed back at makka uptill the 8th of Zil Hijj and spoke to the people and instigated and provoked them against Yazeed. Then he moved towards Iraq.

Termination of the Imam's Representative's Affair

When Yazeed got informed about the movement of Muslim bin Aqeel and oath of allegiance being taken by the Kufis, he at once sent Ibn-e-Ziad, who was the most dirty of his companions, to Kufa with full fledge powers.

Ibn-e-Ziad, who completely knew about the spirit and the character of the people of Kufa, took advantage and made the most of the weakness and debility and feebleness of their faiths and double-faced ness hypocrisy and cowardice. And by terrifying and harassing scattered and dispersed them from around Muslim bin Aqeel. And turned the events to such an extent that even those who had written invitation letters to Imam (A.S.) put on the war dress and got ready to fight the representative of the Imam (A.S.).

"Muslim bin Aqeel" was forced to fight the agents of Ibn-e-Ziad all alone. After showing surprising and astonishing bravery he was arrested and martyred. From the very night Imam Hussain (A.S.) had departed from Madinah he had been giving the news of martyrdom and said, "Whosoever is ready to lay his life on our way and make haste to meet God may join us."

He again spoke to his friends and companions about Jehad, holy war, and martyrdom at Makka. To the extent that even when the poet Farzdak met him on the way and gave him the news of "Muslim bin Aqeel's" being martyred. He said, "Muslim bin Aqeel" has met the blessings of God and ended his mission and has laid the burden of the mission upon our shoulders. We hope to be able to carry this burden and weight up to its destination.

Hussain's (A.S.) Mission

Hussain (A.S.) described his aim about this mission was to disgrace Yazid's regime and to uphold and put into practice (Amer bil Maroof and Nahi anil munkir), to order the correct and right and to stop and refrain from the evils and to stand up against the brutality and cruelty. This was the mission God had entrusted him. His grandfather the Prophet (P.B.U.H.) and his father Ali (A.S.) had several times described their son's is being martyred.

Imam Hussain (A.S.) himself, by virtue of the knowledge of Imamate, knew that this journey would end with his martyrdom. But Hussain (A.S.) was not the one to be afraid of martyrdom and death, and overlook the command of God. He was the Imam who considered calamity as magnanimity and nobility and martyrdom as bliss and blessedness.

Ultimately, he moved toward "Karbala" and he himself and his companions were all martyred. His family members were taken prisoners. But they gave the message of those martyred to the people in the streets, and bazars of the cities and thus put the agents and paid servants of the Bani Omayaid to disgrace and shame.

The face of Hussain and his Companions on the Ashoora Day

Hussain's (A.S.) face glittered and shone like light He gave hope and courage to his companions. The same Imam (A.S.) whose grandfather the Prophet (P.B.U.H.) said, "Hussain (A.S.) is the lamp of guidance and the escape boat of the ummah". Hussain (A.S.) spoke loudly, "Oh people of the world! You must know that I have not taken steps for the battle and did not draw my sword.

An unclean, dirty character man from the criminal family of Omayde named "Yazeed" made me choose one of the two either I draw my sword and defend my honor and religion or surrender to shame and humility. But do know, beware! That surrendering with shame and humility is far away from our family. I am obliged to choose the first way.

Then he stood by the soldiers of Yazeed forces and said, "It is not expedient and wise both for your world and religion (the justice day) to kill me and fight against me. So, if you have taken the decision to fight me. It is better to compose and form a committee and take views from everyone. Then see who says fight against the son of the Prophet (P.B.U.H) who is the one gone astray and ill fated, miserable that accompanies and sides with you for killing me?

The governor of Iraq, son of Marjana, is an unclean and power seeking person. He wants to make you helpless. I know you will repent after my being martyred and will rebuke each other. Therefore, before taking steps for the battle, think and ponder about the result of your action. Be aware, God is my supporter and I am not harassed and bewildered by any coming event. I have heard from my grandfather that "World is the paradise of the infidel and the prison for the faithful."

Death is the beginning of our joy but it is the start of your misery. There is only one bridge between this world and the other world and that is death.

If you initiate and take steps towards battle, we would also stand up along with our friends and worthy sons for defense. If we are victorious it will not be anything new for us and if we are killed world knows that we are not defeated.

"Oh helpless people! The informed and knowledge full people try and endeavor to provide themselves with a lamp, so that they do not loose their way, and I am the lamp of this ummah. But you want to put your lamp off. Do you know against whom do you fight? You are not fighting against me but you fight against God! Against your Prophet (P.B.U.H.)."

After the speech of Imam Hussain (A.S.) an enthusiasm, humming, and murmuring movements took place in the army of the enemy. The war provokers saw that if they would not start the battle, Hussain (A.S.) will shatter the army by his speech and will finish all their planning. Therefore, the order for the battle to be started was issued.

Hussain (A.S.) called out, "Oh my worthy and great friends rise up, this is the time for the combat. His friends like Habib and Zuhair were happy that Imam issued the order. Each one of them requested the other to be allowed to go for battle first, hence take the lead.

The family members of Imam (A.S.) such as the Qamer-e-Bani Hashim (Abbas [A.S.]), Ali Akbar, Qasim and all the rest got prepared for the battle. They attacked the flanks of the enemy like tigers. Whosoever came their way would be killed. Imam Hussain (A.S.) himself showed such a bravery, courage and manhood that as Ibn Sheher Ashob wrote; he slew two thousand men of the enemy.

Whenever and whichever of the friends and relatives was martyred, Hussain (A.S.) would become stronger, and more resolved and determined. One of the soldiers of the enemy said about the astonishments and wonders of Ashoora, "on the day of Ashoora instead of becoming broken and sorrowful whenever Hussain (A.S.) lost a person by martyrdom his face would glow and shine more than before and he became more determined and stronger in the battle and combat.

The thirsty and hungry, but selfless and dedicated, holy warriors showed such bravery and ferocious fight that son of Saad the Commander of the enemy shouted, "If you want to fight like this, all of you will be killed by the swords of Hussain (A.S.) and his companions". Therefore, he ordered all the arrow men, who were nearly four thousand in number, to throw arrows simultaneously and harmoniously. The battle got flared up and reached a climax whosoever out of the Imam's companions would fall down he would utter these words, "Oh God do accept our sacrifice."

"The blessings of God be upon thou souls, oh movers and travelers of the way of God and Hussain (A.S.). Oh the venture some defender of the Quran's path. Hussain (A.S.), wherever blood flew out of his body, he would raise his hands towards the sky and say, Oh God, who is the source and stock of my hope and aspiration, I depend upon you. My hopes are focused upon you. Oh God! Accept these sacrifices from us."

Finally, as per the tradition of Shiekh Mufid, Hussain (A.S.) and his great honorable companions were martyred on Saturday the 10th of Moharram, of 61 Hijrah, and laid to rest side by side, to each other. They gave the lesson of honor, dignity, manhood and bravery to the future generations.

Why Hussain (A.S.) is not forgotten?

The one whose martyrdom, grief, pain, sorrows and children's captivity were all only for God will never fade out of the memories. Instead, by the pace of time and age his love, fascination, and charm will grow in the hearts of people. And each year the love and fascination of the people with respect to that "pure and chaste revolutionary" increases. Hussain (A.S.) spent 57 years of his prolific life for the sake of God's love and God's search. Many times he traveled, to the God's house for pilgrimage, on foot.

He was very fond of prayers confessions and supplication talking intimately. So far so, that on the last night of his life, he asked for respite only that he might sit all alone and make confessions and supplications, to his God.

One of his companions said about Arafat prayers and supplications of Imam Hussain (A.S.), On the 10th day of the month of Zil Hijj Imam Hussain stood in the burning and scorching desert of Arafat facing Holy Kaabah and prayed with painful and aching heart, "Oh God! I turn my face towards you (focus my attention) and give evidence about your being God. O God! You created me and continuously remained along with me and provided me with sustenance and livelihood with several kinds of blessings and bounties. Praise is for the God; nothing can change whose desire and stop His munificence and generosity."

"Oh God adjudge and fix in my soul the independence and freedom from desires and faith and confidence in my heart, and sincerity in my practice and light in my vision and awareness in my religion."

Hussain (A.S.) in the Hearts of Friends

The respect and regard which people had and still have in their hearts for Hussain (A.S.) is due to this that he lived with the people and did not consider himself aloof and segregated from them. As such, one day, he was passing through a way, a group of poor, oppressed and afflicted people was sitting with a food cloth, spread with a certain quantity of dry bread upon it before them and they were eating it. They invited him to sit along with them and eat that food with them. Imam (A.S.) accepted their invitation and sat down besides the food cloth and took the bread with them. Saying, "God does not like the proud ones."

Imam Hussain (A.S.) has hundreds of such examples and specimens of character, which keeps his memory and martyrdom alive in the memories of the people. With every passing year, people strengthen and deepen their relations with Hussain (A.S.).

Otherwise Hussain (A.S.) did neither possess magnificent palaces nor had soldiers or many types of servants. He never closed and blocked the ways and roads to stop the movement of people like the tyrants and imperialists, and Shrine of Holy Prophet (P.B.U.H.) was never vacated for him.

One of his friends said about him "Hussain (A.S.) had the signs of scars of callosity and hard flesh on his back" When his son Imam Zain ul Abidin was questioned about it he said, "These are the callosities and signs of hardened flesh which is due to my father's carrying sacks of food at night time, to the houses of widows and orphan children and poor families."

One of the scholars says about Hussain (A.S.), "In the history of humanity we come across men who were prominent and distinguished in one human quality, a few in bravery, a group in piety and another one in generosity, but Hussain (A.S.) was not distinguished and eminent in one quality and few qualities instead he was distinguished in all the qualities and ethics and possessed all the human perfections and accomplishments included in his personality.

Yes, such is the person who is the heir of Mohammad's (P.B.U.H.) Prophetic mission. Who is the heir of Ali's (A.S.) justice and bravery? Who is the heir of his mother Fatima's (S.A.) modesty and chastity?

He was the reflection of all the merits, accomplishments. Self sacrifices, piety and God's love.

What day is the Ashoora?

Ashoora was a formal Arab Eid day in the days and era of ignorance. People used to keep fast and make merry, and hold ceremonies of joy in the same manner as Nauroze was considered to be the Eid day in Iran.

In the Arab history, Ashoora day (10th of Moharram) was the historical and customary Eid, when the various tribes of Arab put on new clothes and decorate the cities. Still, a group of Arabs, who is known as the "Yazeedi" group celebrates this day as a joyous festival.

When the incident and anguish of Karbala took place in the year 61 Hijrah, the mode and line of tendencies, and views of Arab and the Muslims was changed. Moharram, which was taken to be as one of the (Haram) prohibited months. War and killing was prohibited in it because the martyrdom day of the best of the sons of Adam i.e. Hussain Ibn-e-Ali (A.S.) and for the Shias it became a day of sorrow and grief, the day of honoring and celebrating the memories of the martyrs.

In the very first year of the martyrdom of Imam Hussain (A.S.) his friends nearly thousands in number gathered around his grave and recited alleges. From the ushering of the era of Bani Ommayide and Yazeed unto this day, hundreds of thousands of the friends of Ahl al-bayth (A.S.) celebrate the mourning meetings and caravans move towards Karbala.

Those whose cities are away and at long distance from Karbala shape their cities as Karbala and hold mourning gatherings.

The Fatimydes of the Egypt announced the Ashoora as the day of mourning of Imam Hussain (A.S.). As such, men and women gathered around the grave of Ome Kulsum (S.A.) and mourned and recited the alleges. All along the Fatimyde Era in Egypt Ashoora remained the official and formal day of mourning and grief.

Moez ud duala Delmi ordered that Ashoora be celebrated officially in Iran and entire population and government officials must refrain from work and celebrate the mourning rituals.

This is the very reason why the mourning rituals in Iran, Egypt, Iraq and India have brought about a spiritual movement and ideological change among the Muslim masses so that today's movement of Muslims is the sequence of the same. With every passing year, it is becoming more fruit full. Hoping that a day will come when people will mend their perverse nesses and misbehaviors and make up their deficiencies and faults and enhance their strength and values.

One of the scholars says about it "Mosques are the relics and vestiges of the Prophet (P.B.U.H.) but the monasteries of mourning and Hussainias (centers of mourning) are the relics of the Ahl al-bayth (A.S.).

The Shias prattle and tell their secrets to God in the mosques and in the mourning centers they prattle to the lovers of God and those who were martyred for Him and on His way.

All along the passage of history no power could stop the movement of the Caravan of Hussain (A.S.) and history has shown that during the entire length of thirteen centuries this enthusiastic movement could not be hushed up and cooled down. For the same reason, because the martyrdom of Hussain (A.S.) and his friends took place on such a day then Joyous ceremonies and decorative measures, joyous and happy celebrations, and lightings and keeping of fast became prohibited and haram on that day.

Ibn-e-Kaseer writes, "Ashoora was announced as the public and national mourning day in Baghdad in the approximates of 400 Hijrah. People used to keep cold water and cold drinks on the highways and through fares for the thirsty ones to drink and to commemorate the thirst of Hussain (A.S.) and people of Iraq used to become mournful on the Ashoora day just like the death day of the Holy Prophet (P.B.U.H.).

Who was the Winner of the Karbala Movement?

Although a group of simple people think that Yazeed won the Ashoora battle and Hussain (A.S.) was defeated. But by studying the history deeply and thoroughly they would appreciate that the situation was reverse and opposite of it. For, winning and succeeding does not mean that a person must remain unharmed and intact and the enemy be killed. But it means success in achieving one's objects and goals and aspirations and ideology although one is killed. Defeat does not mean being killed and loosing life in the battlefield. But it means the death and annihilation of objective, aspiration and belief.

Hussain (A.S.) himself and his friends were martyred in the Ashoora's tragic event, his family was taken prisoner, their properties were plundered and looted but the aim and objective of Hussain (A.S.) remained alive, because, his aim was the spreading and expansion of Islam and stopping the cruelty, tyranny and aggression, which has been carried forward during the entire length of history and millions of men are the holders and carriers of the flag of this belief and aspiration. Hut the aim of Yazeed was annihilated and perished; because his sole aim was not killing Hussain (A.S.) and his friends instead it was finishing Islam and the end and termination of the teachings of the Holy Prophet (P.B.U.H.) of Islam. Since Hussain (A.S.) was on that track and way, Yazeed thought by killing Hussain (A.S.) and taking his family as prisoner the story will finish and his ends will be achieved.

Not knowing and unaware of this fact that God himself is the guard and custodian of Islam and Quran and the teachings of the Prophets. The tyrants, arrogant, and powerful of the history who always stood up against the Prophets and fought them, killed them or banished them, had the same obnoxious aim but none of them succeeded neither Nomrod and Pharos nor anyone else of them. What success can be better and clearer than this that many centuries have passed and there is no name and signs of those tyrants of the history among the people. But the Prophets of God and the, religious leaders still have their places in the depth of the hearts of the informed, aware, and human loving people. People praise them regarding their greatness and they do not cherish the memories of the kings. Today we observe that the graves of religious leaders and the real movement makers of history have got devoted lovers who travel long distances after bearing the inconveniences and discomforts, to bow down to their graves and tell their secrets to them. But the graves of the tyrants of history do not have any visitors because they do not have anything to give it to anyone.

After, the catastrophe and calamity of Karbala the signs of the triumph of Hussain (A.S.) and defeat of Yazeed became evident and clear, because where ever the remaining family members of Hussain (A.S.) would set their feet people would exhibit their emotions, of love and attachment with them and curse their enemies, to such extent, that even the family members of Yazeed did not give him any respect. Instead, a few of his near relatives raised objection and rebuked, reproached and blamed him.

Brief Sayings of the Imam Hussain (A.S.)

1. Imam Hussain (A.S.) said on the day of Ashoora: "People are the servants of the World and touch the religion by their tongues. Till such time that they know that religion does not carry any harm for them, they would move and spin around it. But when the test comes then the real religious ones are (to be seen) actually very few in number."

2. Imam Hussain (A.S.) told his son Imam Zain ul Abidin: "Avoid being cruel to anybody who does not have any helper except God."

3. During fare well to his son on Ashoora day he said: "Oh my son do not weep, do not shed tears on my leaving, your distress and calamity does not come to an end. But that will be the beginning of your discomforts, agonies and grief's. Be strong, because God is your supporter. Beware, after I pass away, do not say a word before the enemy so that your worth comes down."

4. Worst of the people is the one who gives (surrenders) his dooms day for his world (material gains).

5. Do not perform any good work for the sake of people's praise and do not abandon it for fear of shame.

6. Those who worship and adore God do not worship others.

7. Whatever my brother Hassan (A.S.) did during his life was upon the command and order of God. And that which I do is also upon the order of God.

8. Do not say a word, which may make you repent and force you to make excuse

hazrat imam hassan a.s. part 1

Hazrat Owais.e.Qarni (r.z) - Movie In Urdu Part6

Hazrat Owais.e.Qarni (r.z) - Movie In Urdu Part5

Sample text

ALI WALIY NETWORK
Disclaimer: All the postings of mine in this whole blog is not my own collection. I am just saving some time of our blog users to avoid searching everywhere. Am not violating any copy rights law or not any illegal action am not supposed to do.If anything is against law please notify so that they can be removed

Thanks ALI WALIY NETWORK

Total Pageviews

Ads

 

Lorem ipsum

The only one source for SHIA MUSLIM Nohay, Lectures, Videos, Majalis. BEST SHIA SITE, VIDEOS, Please Join us .

Images Gallery

pix pix pix pix pix pix